انتہاء نہیں ابتداء – برزکوہی

590

انتہاء نہیں ابتداء

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

کوئی بھی مرض نا قابلِ علاج نہیں بلکہ ابتک اسکا علاج دریافت نہیں ہوا ہے، کوئی بھی مسئلہ نا قابلِ حل نہیں ہوتا بلکہ ابتک حل تک پہنچا نہیں گیا ہے۔ ماضی میں جن بیماریوں یا سائنسی و سماجی مسائل کو قطعیت کے ساتھ ناقابلِ علاج یا ناقابلِ حل گردانا گیا آج وہ ممکنات کے دائرے میں نظر آتے ہیں اور آج ایسے کئی انسانی مسائل ہیں، جن کا حل انسانی وقعت سے باہر نظر آتا ہے، لیکن بعید نہیں کے کل وہ بھی انسان کے گرفت میں نظر آئیں۔ فرق کیا ہے ایک مسئلے پر آکر رک جانے، اس سنگِ راہ کے ہٹنے کو ناممکن قرار دیکر جامد ہونے میں اور اس پتھر سے ماتھا ٹکرا ٹکرا کر اسے توڑنے اور آگے بڑھنے میں؟ محض جستجو، سچی لگن، مکمل کوشش اور مستقل مزاجی۔ صرف اندھا یقین اور پیروی کافی نہیں۔ ایک مسئلے پر آپکی سوچ اور اسکے حل پر آپکا طریق و نقطہ نظر بہت کچھ کا فیصلہ کردیتا ہے۔ اسی لیئے ایک ہی مقام پر کھڑے ہونے کے باوجود دو سوچ ایک مقام پر نہیں ہوتے۔ وہی ایک ہی مقام جدت کا ابتداء اور رجعت کا انتہاء ہوسکتا ہے۔

ہم بلوچ اپنی آزادی کی ایک بہت لمبی جدوجہد کررہے ہیں، ان بہتر سالوں میں بہت سے نشیب و فراز اور عروج زوال سے ہم گذرتے آئے ہیں۔ سب سے بڑا حاصل یہ ہے کہ تحریک زندہ ہے اور قوم باقی ہے اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ہماری جنگ سانپ سیڑھی کے کھیل کی مانند ایک ابھار پاکر اوپر چلی جاتی ہے، لیکن پھر شکار بن کر نیچے آجاتی ہے اور پھر سے محنت کرکے اوپر جانا پڑتا ہے۔ آخر ہم بچ کر سو تک پہنچ کیوں نہیں پارہے؟ آخر وہ کونسے تقاضے ہیں، جو ہم پورے نہیں کررہے، کونسی غلطی ہے، ہم دہرا رہے ہیں، کونسی کمی ہے ہم میں جس کی بھرپائی ہم اتنے سالوں نہیں کرپائے؟

اگر میں حقیقت کے دامن کو چھوڑ کر پرانا ڈھول پیٹتا رہوں تو پھر میں وہی راگنی دہرا کر گلو خلاصی کرنے کی کوشش کرونگا کہ جناب ہمیں عالمی حمایت حاصل نہیں اسلیئے، لیکن جناب اپنی آزادی کا ذمہ دار آپ خود ہیں، عالم نہیں۔ بلوچوں کی آبادی کم و منتشر ہے، جناب اس کم آبادی کا ہی کتنا فیصد آپ ملا پائے ہیں؟ سردار چور ہیں، مڈل کلاس مکار ہیں، جناب کہیں آپ طبقہ طبقہ کھیل کر اپنی نا اہلی کا ملبہ کسی اورکے اوپر ڈالنے کی جتن تو نہیں کررہے؟ جی دشمن بہت ظالم و غیر مہذب ہے، جناب دشمن اور مہذب؟ دنیا کے کس قوم کو جنگ میں مہذب، رحم دل دشمن سے واسطہ پڑا؟ جی قوم میں تعلیم و شعور کا فقدان ہے، اچھا جناب کیا اس سے پہلے صرف ان قوموں نے ہی آزادی حاصل کی ہے جو جامعات سے فارغ التحصیل تھے؟ اگر نہیں تو پھر ذرا سوچیں کہ یہ کس کا کام ہوتا ہے بتانا اور سمجھانا کہ کیوں قوم کو آزاد ہونا چاہیئے؟

یعنی ہم اکثر و بیشتر جن مسائل کو رکاوٹ گردان کر جنکا ڈھول پیٹ رہے ہوتے ہیں، درحقیقت وہ مسائل ضرور ہیں، ایسے مسائل جن کا کم و بیش دنیا میں اٹھنے والے ہر ایک تحریک کو سامنا کرنا پڑا ہے، لیکن وہ تحریک کو روک دینے والی رکاوٹیں نہیں ہیں۔ پھر وہ رکاوٹ کیا ہے؟ کیا ہے ہمارا وہ مسئلہ جو ابھی تک حل طلب ہے؟ اس پر بھی بہت سر جوڑنے کی، تھیسز لکھنے کی ضرورت نہیں، بس ذرا باریک بینی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کی ہر تحریک اول موضوعی ہوتی ہے، ایک نظریہ و خیال ہوتا ہے، جو لوگوں کے ایک گروہ کے مشترکہ مفاد کیلئے ہوتی ہے۔ پھر مطلوبہ اہداف و مفادات کو حاصل کرنے کیلئے، اس موضوع کو معروضی حقائق سے جوڑا جاتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ اپنے جیسے یا اپنے ہم خیال لوگوں کو اکھٹا کیا جاتاہے، انہیں منظم کیا جاتا ہے، مزید ہم خیال پیدا کیئے جاتے ہیں۔ اسے ایک قوت میں تبدیل کیا جاتا ہے، اور لوگوں کے اس ہجوم اور انکے کوششوں، و انکے کوششوں کے نتائج کو یکجا کرکے ایک اجتماعی شکل دی جاتی ہے۔ یعنی جدا جدا کمزور افراد مشین کے پرزوں کی طرح جمع ہوکر ایک بہت بڑے طاقتور مشین کی شکل اختیار کردیتے ہیں۔ اور مطلوبہ اہداف حاصل کرلیتے ہیں۔ اس سارے عمل کو آسان الفاظ میں تنظیم و تنظیم کاری کہا جاتا ہے۔ اور ہم یہیں مات کھا رہے ہیں۔ ہم نے کاغذ پر تنظیم ضرور بنائے ہیں، اور ان سے مشابہہ چیزیں بھی ضرور چلا رہے ہیں لیکن ہم حقیقی تنظیم بنانے میں ناکام رہے۔

ہمارے پاس لے دیکر جو تنظیمی دعوے موجود ہیں، وہ یا تو نیم قبائلی مزاج کے حامل ساخت ہیں، جنہیں شوخ آئین و نام دیکر تنظیم کہا گیا ہے یا پھر بندوبست پاکستان کے سیاسی جماعتوں کے نقالی کرنے والے طوطے جماعتیں ہیں۔ اور جن نام نہاد پاکستانی سیاسی جماعتوں کی ہم لاشعوری طور پر نقالی کررہے ہیں، ان سب کے ڈانڈے انگریزوں کے زمانے کے مسلم لیگ سے لیکر آج تک، فوجی اسٹبلشمنٹ سے ملتے ہیں، جنکی ساخت و فطرت کی ترتیب ہی ایسی ہے کہ وہ کبھی کسی ” اسٹیٹس کو” کو چیلنج نا کرسکیں اور جب بھی وہ خطرناک حد تک آگے بڑھ جائیں تو وہ اپنے بوجھ سے خود گر کر دو لخت ہوجائیں۔

آج جن بہت سے چھوٹے بڑے مسائل کو رکاوٹ گردان کر سامنے پیش کیا جاتا ہے، یہ تمام مسائل جڑ نہیں بلکہ اصل مسئلے کے جسم سے پھوٹنے والی شاخیں ہیں۔ حقیقی اور مضبوط تنظیم نا ہونے کی وجہ سے بہت سے ایسے مسائل پیدا ہوتے ہیں، جو پیدا نہیں ہونے چاہئیں اور بہت سے ایسے مسائل بڑھ کر اتنے بڑے ہوکر لاعلاج ہوجاتے ہیں، جنہیں موقع پر حل ہونا چاہیئے۔

آج جنہیں مسائل کہہ کر بیان کیا جاتا ہے، کبھی کبھار وہ بیانِ مسائل یا مسئلوں کی تشخیص کی کوشش سے زیادہ ذمہ داریوں سے پہلو تہی، دستبرداری اور اہلیت کی کمی نظر آتی ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ بیرونی اقوام کی حمایت تحریک کی کامیابی کیلئے اتنا ضروری ہے، تو پھر ایک مضبوط تنظیم ہی یہ حمایت جاکر حاصل کرسکتا ہے۔ کسی منتشر و کنفیوزڈ جتھے کو کوئی دانا نہیں ڈالتا۔ بہتوں کے منہ سے یہ گلہ سنا ہے کہ جناب ہمارے پاس وسائل نہیں اس لیئے ہم اپنے بہت سے ساتھیوں کو سنبھال نہیں سکتے، اسلیئے ایک آدھ یہاں وہاں سے سرینڈر کرتے رہتے ہیں۔ اس سے بڑی تنظیمی ناکامی کا اور کوئی ثبوت نہیں ہوسکتا کہ ہم ایک خاص تعداد کے بعد ان رضاکاروں تک کو سنبھالنے سے قاصر رہیں، جو اپنی جان تک قربان کرنے سے گریز نہیں کرتے، کیا پھر کوئی سوال رہ جاتا ہے کہ اصل رکاوٹ کیا ہے؟

ایک کارکن کے راشن سے لیکر جنگی یا سیاسی تربیت تک، عالمی حمایت سے لیکر اپنی قوم کی حمایت تک، اپنی حفاظت سے لیکر اپنی قوم کی حفاظت تک، وسائل پیدا کرنے سے لیکر افرادی قوت مجتمع کرنے تک یہ سب تنظیم کی ذمہ داری ہوتی ہیں۔ اگر آپ کسی وجہ سے ان مسائل کو حل نہیں کرپارہے ہیں تو آپ نا اہل ہیں اور اگر آپ مسلسل حل نہیں کرپارہے ہیں تو پھر آپکے پاس تنظیم نہیں ہے۔

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم حقیقی تنظیم کی نیت سے ساخت و رنگ بنادیتے ہیں، لیکن ہمارے مزاج ابتک نیم قبائلی اور پاکستانی سیاست سے پلید زدہ ہیں۔ اس لیئے ہمارے ڈالے گئے تنظیم تھوڑا آگے بڑھ کر ہر ایک، ایک جدا قبیلہ بن جاتا ہے، پھر اسکے سردار۔

اسے بدلہ کیسے جائے؟ سب سے پہلے، ہر کوئی اس لفاظی اور ڈھکوسلے سے باہر نکلے کہ ہمارے پاس مقدس تنظیم ہیں اور میں پیغمبرانہ صفات کا مالک رہبر و سالار ہوں۔ اپنے خیالی جنت سے نکل کر مسئلے کو تسلیم کیا جائے کہ ہمارے پاس کوئی حقیقی تنظیم نہیں، جب اس بات پر اتفاق ہوا، پھر اس مسئلے پر غور ہو کہ بہتر سالوں میں بنائے گئے ہمارے درجنوں ڈھانچے تنظیم کیوں نہیں بن سکے اور اسکے بعد اپنی کمزوریوں کو وہیں رکھ کر، اسی مقام سے آغاز کریں۔ آپ جہاں ہیں اسے اپنا انتہا نہیں ابتداء بنائیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔