کراچی پریس کلب کے باہر طالب علم تنظیمیوں کی مشترکہ احتجاجی بھوک ہڑتال کیمپ دوسرے روز بھی جاری رہی، مظاہرے میں طالب علموں سمیت دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے آخر شرکت کی۔
آن لائن کلاسز کے خلاف احتجاج کے دوسرے روز مظاہرین طالب علموں نے پریس کانفرس کی۔
پریس کانفرنس میں طالب علم رہنماؤں نے کہا کہ آپ تمام لوگوں کے علم میں ہے کہ بلوچستان، ڈیرہ غازی خان کے قبائلی علاقے، کشمیر، گلگت بلتستان، خیبر پختونخواہ اورسندھ کے دیہاتی علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ بلوچستان میں انٹرنیٹ کے ساتھ ساتھ بجلی کی سہولیات بھی ناپید ہے۔ سوال یہ جنم لیتا ہے کہ انٹرنیٹ اور بجلی کے بغیر آن لائن کلاسز میں کیسے شرکت کی جائے؟
انہوں نے کہا کہ ہمارا مطالبہ سادہ سا ہے کہ آن لائن کلاسز لینے کے لئے ہمیں انٹرنیٹ کی سہولیات اور بجلی فراہم کی جائے تاکہ ہم کلاسز لے سکیں۔ ہم یہاں شوق سے نہیں بیٹھے ہیں بلکہ اپنے مستقبل اور طالب علموں کے مستقبل کو تاریک ہونے سے بچانے کے لئے اس وباء کے دنوں میں بھی احتجاج میں بیٹھے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کہتے ہیں کہ طالب علم قوموں کے مستقبل کی تعمیر کے اہم کردار ہوتے ہیں لیکن یہاں قوم کے مستقبل کو کیوں زوال کیا جارہا ہے؟ کیوں ہائیر ایجوکیشن کمیشن ایک عام و سادہ مطالبہ کو نظر انداز کررہی ہے؟ کیوں وفاقی حکومت، صوبائی حکومت اور محکمہ تعلیم طالب علموں کے احتجاج کا نوٹس نہیں لی رہی۔
رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ہم یہاں اس امید میں احتجاج کررہے ہیں کہ اعلیٰ ادارے ہماری آواز سن کر ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو اپنے فیصلے پہ نظر ثانی کرنے کے لئے مجبور کرینگے لیکن افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہماری آواز سننے والا کوئی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی، بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل اسلام آباد، بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل ملتان، بلوچ ایجوکیشنل کونسل بہاولپور، بلوچ ایجوکیشنل کونسل کراچی اور بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل لیاری نے آن لائن کلاسز کے خلاف شروع دن سے ہی اپنا موقف سامنے رکھا کہ سہولیات کے بغیر آن لائن کلاسز منعقد کرنا طالب علموں کے مستقبل کے ساتھ مذاق ہے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا فیصلہ غیر منصفانہ اور معروضی حقائق کے برعکس ہے جس کے خلاف بھرپور احتجاج کرینگے۔ جب تک ہائیر ایجوکیشن کمیشن اپنے فیصلے پہ نظر ثانی نہیں کرے گی احتجاج کا سلسلہ طول پکڑتا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے ذمہ داران کا حالیہ بیان طالب علموں کے لئے حیرانی کا باعث ہے کہ ایک ذمے دار ادارہ اپنے ناکام تعلیمی پالیسیوں کو چھپانے کے لئے طالب علموں پہ الزام لگا رہی ہے کہ وہ بغیر امتحان کے پاس ہونا چاہتے ہیں۔ اگر طالب علم بغیر امتحان کے پاس ہونا چاہتے، اگر طالب علم بغیر کلاسز کے پاس ہونا چاہتے تو کرونا وائرس کی وباء میں اپنی زندگی داؤ پہ لگانے کے لئے پریس کلب میں نہ ہوتے بلکہ آئسولیشن میں ہوتے۔
بھوک ہڑتال کا فیصلہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی ہٹ دھرمی اور حکمرانوں کی بے حسی کے خلاف لگایا ہے جنہیں اس بات تک کا احساس نہیں کہ طالب علم اس تپتی دھوپ میں انصاف کے لئے سراپا احتجاج ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آن لائن کلاسز کے انعقاد کا فیصلہ عجلت اور جلد بازی میں لیا گیا فیصلہ ہے جس نے طالب علموں کا مستقبل خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے تمام طالب علموں سمیت مختلف شعبہ حیات سے منسلک لوگوں کو طالب علموں کے آواز سے آواز ملانے پہ زور دینی چاہیے کیونکہ یہ مسئلہ ایک فرد، ایک طالب علم یا ایک تنظیم کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے قوم کا مسئلہ ہے کیونکہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے اس فیصلے اور ہٹ دھرمی سے کئی طالب علم حصول علم سے محروم ہوسکتے ہیں اور اس کے نتائج اور منفی اثرات سے پوری قوم متاثر ہوسکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی اور اس کے اتحادی کونسلز اس فیصلے کے خلاف بھرپور احتجاج کو اپنا آئینی حق سمجھتے ہیں اور اسی حق کو استعمال کرتے ہوئے آئندہ دنوں میں احتجاج کے عمل میں مزید تیزی لائی جائیگی۔
رہنماؤں نے کہا کہ ہم اس پریس کانفرنس کی توسط سے عوام اور طالب علموں کو آگاہ کرتے چلیں کہ احتجاج کے سلسلے میں آج مورخہ دس جون بروز بدھ شام چھ بجے سے رات گیارہ بجے تک سوشل میڈیا میں کمپئین چلائی جائیگی جبکہ گیارہ جون بروز جمعرات آرٹس کونسل سے کراچی پریس کلب تک احتجاجی ریلی نکالی جائیگی۔
تمام طالب علم تنظیموں، سیاسی جماعتوں، انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے افراد اپیل کرتے ہیں کہ وہ طلبہ تنظیموں کے ہم آواز بن کر قوم کے مستقبل کو تاریک ہونے سے بچائیں۔
رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اس پریس کانفرنس کے توسط سے ہم وزیر اعظم پاکستان، چیف جسٹس سپریم کورٹ، وزیر تعلیم شفقت محمود اور دیگر ذمہ داران سے اپیل کرتے ہیں کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے فیصلے کو منسوخ کیا حائے اور ایسا نہ ہونے کی صورت میں انٹرنیٹ اور بجلی کی سہولیات سے محروم علاقوں میں مجوزہ سہولیات فراہم کی جائیں۔