آل پارٹیز کیچ کے سیاسی اقدار، گالی گلوچ؟
تحریر: ظفر رند
دی بلوچستان پوسٹ
ہم نے اپنی سیاسی تربیت میں یہی سنا اور سیکھا ہے کہ سیاست میں سوال اور تنقید دو انتہائی اہم اجزاء ہیں. سوال اور تنقید سے ہی اصلاح کی راہیں ہموار ہوتی ہیں. سوال سے بند دریچے کھلتے ہیں اور ترقی کی جانب سفر بڑھتا ہے.
اسی تربیت کے پیش نظر میں نے چند سوالات اور ایک تنقید کل تربت ریلی کے متعلق رکھے تھے جوکہ سانحہ ڈنک کے خلاف نکالی گئی تھی.
سانحہ ڈنک ایک دل دہلا دینے والا واقع تھا، جس کے خلاف بلوچستان بھر سے غم و غصے کا اظہار کیا گیا. ہم طلبہ اور سیاسی و سماجی کارکنان نے بھی اپنی بساط کے مطابق اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا. اسی طرح حلقہ وقوعہ کے سیاسی اکابرین نے آل پارٹیز کیچ کے نام سے ایک اتحاد کی شکل میں ڈنک سانحہ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرنے کا فیصلہ لیا جس پر ہم سٹوڈنٹس نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بھرپور حمایت اور توانائی سرف کرنے کا اعائدہ کیا.
دو جون کو تربت کی کڑکتی دھوپ میں ہزاروں کی تعداد میں عوام نے مظاہرے میں شرکت کی جس میں سینکڑوں کی تعداد میں خواتین بھی شریک ہوئیں.
ہم سیاسی طالب علم سٹیج کے قریب قریب کا جاکر چپک کے بیٹھے تاکہ سیاسی اقابرین کو قریب سے دیکھیں اور ان سے کچھ سیکھنے ملے. لیکن ہم نے دیکھا جونہی مظاہرے کا ماحول گرم ہوا اسی دوران سیاسی جماعتوں کے درمیان بھی گرما گرمی شروع ہوگئی اور آل پارٹیز کے منتظمین ایک دوسرے پر باتیں کسنا شروع ہوگئے. یہ ماحول دیکھ کر مجھ سمیت دیگر کئی طلباء کو صدمہ پہنچا. معاملہ اتنا تلخ ہو گیا کہ دھرنا چھوڑ کر منتظمین اپنے کارکنان کو لیکر اپنے اپنے پارٹی آفسوں میں چلے گئے. انکی آپس میں شدید تلخ کلامی کو دیکھ کر ہمیں شدید مایوسی بھی ہوئی اور افسوس بھی ہوا.
میں نے جو دیکھا اور محسوس کیا ان تاثرات کو فیسبک پر ایک پوسٹ کی صورت میں پوسٹ کیا اور تنقیدی سوال رکھا کہ آل پارٹیز کیچ کی قیادت اس قدر غیر سنجیدہ ہے تو پھر یہ کیسے اتنے بڑے سانحے کی تدارک کر سکیں گے اور ہم مظلوم عوام کو انصاف دینگے.
میرے اس پوسٹ کا کسی شریف انسان نے سکرین شارٹ لیکر آل پارٹیز کے گروپ میں پھینک دیا اور سب اقابرین کو مطلع کر دیا کہ دھرنے کے دوران پیش آنے والے رویہ کو نوجوانوں نے نوٹس کر لیا ہے اور وہ تنقید کر رہے ہیں.
پس, اتنی سی بات تھی اور ایک جناب نے گلی کوچوں کی اپنی روایتی انداز میں گالم گلوچ شروع کردی اور مجھ سمیت میرے سیاسی استادوں تک کو گندے اور غلیظ الفاظ سے نوازنا شروع کر دیا. یاد رہے موصوف کیچ سول سوسائٹی کے چیئرمین ہیں اور آل پارٹیز کیچ میں مرکزی کردار کے حامل شخصیت ہیں.
مجھے افسوس ان بونے سوچ کے حامل شخص کے رویہ کا اتنا نہیں ہے بلکہ زیادہ افسوس اس بات پہ ہوا کہ اس وٹس اپ گروپ میں وہ وہ شخصیات شامل ہیں، جنہیں مجھ سمیت سینکڑوں نوجوان اپنا آئیڈیل مانتے ہیں اور انکی بڑی عزت و پیروکاری کرتے ہیں. افسوس اس بات کا ہوا کہ ان آئیڈیل شخصیات نے اس نام نہاد شخص کی مذمت نہیں کی بلکہ الٹا کچھ لیڈر صاحبان یہ تجاویز دیتے رہے کہ “انکو چھوڑو, کمنٹ نا کرو, اہمیت نا دو, معاملہ دب جائے گا”
افسوس! صد افسوس !
جناب والا یہ آپ کس دور میں رہ رہے ہیں اور کس کو دھوکا دینے کی کوشش کررہے ہیں؟ آپ کے انہی رویوں کا نتیجہ ہیکہ آج سیاسی محاذ پر ڈاکوؤں اور لٹیروں کا قبضہ ہے اور آپ بے بس ہو چکے ہیں. بلکہ آپ بھی مجبور ہو چکے ہیں کہ ان ڈاکوؤں کے آگے سرتسلیم خم کر دیں.
میں جناب والا کو گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کہ صاحب! میرا نام ظفر رند ہے. میں تربت یونیورسٹی میں بلوچی لٹریچر میں ماسٹرز کا سٹوڈنٹ اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا ایک زمہ دار ممبر بھی ہوں. میں کوئی بازاری شخص نہیں ہوں بلکہ ایک زمہ دار سیاسی کارکن ہوں. یہ سیاسی اقدار کی توہین ہیکہ آپ ایک سٹوڈنٹ کو ایسے بیہودہ الفاظ سے نوازیں. میں نے سیاست میں نظریات کو آدرش مانا ہے اور نظریاتی سیاست کا اصول ہیکہ سطح پر ظاہر عوامل کو گہرائی میں جھانک کر بنیادی محرکات کا تنقیدی نگاہ سے جائزہ لیا جائے اور پھر رائے قائم کیا جائے تو پھر آپ درست پالیسی و حکمت عملی ترتیب دینے میں کامیاب ہونگے. یہی آدرش میرے سیاسی ادارہ “بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ” نے دیئے اور میرے سیاسی اساتذہ نے مجھے تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا سکھایا ہے اور ناقابل مصالحت جدوجہد کے انقلابی اصولوں کی رغبت دی ہے. میں آپکی گالی کا جواب سیاسی زبان میں دینا پسند کرونگا اور نوجوان حلقوں میں آپ سمیت آپ جیسے تمام بونے سوچ رکھنے والے نام نہاد لیڈروں کا کچا چھٹا کھولنے کی مدلل سعی کرونگا.
آپ جناب نے جو کہا اور کیا وہ آپکی قد قامت کو ایکسپوز کرتا ہے. وہ وقت دور نہیں جب آپ جیسے سوچ کے حامل افراد کو کہیں پر بھی جگہ نہیں ملے گی.
آخر میں آل پارٹیز کے زمہ داران سے ایک ماسٹرز کے سٹوڈنٹ و سیاسی کارکن کی حیثیت سے گزارش کرونگا کہ آپ جیسے قائدین کی صفوں میں موجود ایسے افراد آپ کے اور عوام کے درمیان دوری کو مزید وسعت دینے کے باعث بن رہے ہیں، لہٰذا اپنی صفوں کا جائزہ ضرور لیں.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔