کلاس روم سے شور پارود تک
دوسری قسط
تحریر : میروان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
یہ میری بدقسمتی ہے کہ میں شہید احسان جیسے انسان کے قریب خود کو نہیں کرپایا، وہ اس لیئے بھی کہ شہید احسان بہت حساس انسان تھے، ان کے دوستوں کا دائرہ بہت محدود تھا۔ وہ علم و ادب والے انسان تھے، دنیا بھر کے انقلابی مصنفین کی کتابیں وہ پڑھ چکا تھا، وہ خود کی تلاش میں سرگرداں تھا، وہ فریڈرک نطشے اور سارتر کے کتابوں میں خود کو ڈھونڈ رہا تھا۔ ایک دوست نے کل ہی مجھے ان کا ایک یاد جو شہید احسان سے وابستہ ہے بتایا۔کہ وہ ہمیشہ یہ بلوچی گانا “زندگیں انسان آں، زندگی گار انت منی” (زندہ ہوں پر اپنی زندگی کی کھوج میں ہوں جو کھو گیا ہے مجھ سے”) زیادہ سنتا تھا تو میرے پوچھنے پہ بتایا کہ ” سنگت اس گانے میں میں خود کو تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔”
سنگت احسان سے نزدیکی اس لیے بھی ممکن نہ ہو پایا کیونکہ وہ سینئر دوست تھے، ان کی ڈگری آخری مراحل میں تھا اور میں نیا نیا یونیورسٹی میں داخل ہوا تھا۔ سنگت احسان کو شاعری سے بہت لگاؤ تھا۔ عطا شاد، سید ہاشمی، مبارک قاضی اور منیر مومن کے اشعار انہیں زبانی یاد تھے۔ اس بات کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب ایک دیوان میں اس نے ان شاعروں کے کلاموں کو دوستوں کے سامنے پیش کیا۔ وہ خود بھی شاعری کی کوشش کرتے تھے، ان کی ایک غزل جو ان کے فیس بک سے مجھے ملا یہاں محفوظ کرتا ہوں۔
“وہ دیا جو جلا کے گئے تھے تم،
ان ہواؤں نے اسے بجھا دیا”
لیکن سنگت احسان جو دیا آپ جلا کے گئے، وہ آخری صبح تک یونہی روشن رہے گا۔ زمانے کا کوئی ستم، دشمن کا کوئی جبر، اپنوں کی کوئی سازش، آپ کے جلائے ہوئے شمع کو بجھا نہیں پائیں گے کیونکہ اس کی آبیاری آپ اور شہید سنگت شہداد نے اپنے خون سے کی ہے۔
احسان ایک مکمل انقلابی انسان تھے اور اس انقلاب کی راہ میں خود کو مکمل وقف کرنے کا جذبہ شروع ہی سی ان کے ذہن میں تھا۔ ان کا ایک فیس بک پوسٹ، ان کے آج کے قربانی کا ثبوت دیتا ہے جو انہوں نے 2012 میں پوسٹ کیا تھا
“گارباں، طوفان باں، بیگواہ باں، بلے سید،
اے شگان ء جت مہ کنت کس ءِ کہ پشت کنزتگ”
(میں شاید گم ہوجاؤں کہیں، طوفاں کی شکل میں آجاؤں یا لاپتہ ہوجاؤں لیکن کل کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ میں اپنے نظریہ و فکر سے ہٹ گیا تھا)
اور جب شورپارود کی پہاڑوں میں اسکی سرد جسم وطن کے خاک کے ساتھ مل چکا تھا، تو وطن کا ایک ایک ذرہ اس بات کی گواہی دے چکا تھا کہ احسان پیچھے نہیں ہٹا تھا، احسان نے وطن کا قرض اتار دیا ہے۔ وطن کا ایک ایک گواڑخ شہید احسان کے خون کی رنگ میں رنگیں ہو کر یہ گواہی دے رہے ہیں کہ شہید احسان نے تمام تر انسانی آسائیشوں، خاندانی رشتوں، کو چھوڑ کر وطن پہ امر ہونے کو ترجیح دی۔ وہ پیچھے نہیں ہٹا، جب تک اسکی سانسیں روان تھیں اور جب تک اس کے جسم میں خون کا ایک قطرہ باقی تھا، وہ شہداد بن کے دشمن پہ ٹوٹ رہا تھا
سنگت احسان کے ساتھ سفر اتنا ہی تھا لیکن شہید شہداد کے ساتھ زندگی نے زیادہ موقع دیا۔ شہید سنگت شہداد انتہا کے دلیر انسان تھے، دوستوں کے لیے بے پناہ محبت اور دشمنوں کیلئے قہر بن جاتا تھا، جب تک وہ طالبعلم کی حیثیت سے ہمارے بیچ موجود تھا، ان جیسا مہروان شاید اور ہو اور جب وہ محاذ پہ گیا تو دشمن پہ درا بن کے ٹوٹ پڑا۔ انکی بہادری، دلیری، وطن کا غم، وطن پہ مر مٹنے کی جنوں کبھی کبھی ہمیں بھی خوفزہ کر دیتا تھا۔
جب 2018 کو شال کی یخ بستہ برف پہ سیما بلوچ (لاپتہ شبیر بلوچ کی بہن) کے گرم آنسوؤں سے پگھلنے لگا تھا تو ہر درد دل رکھنے والے نے سیما بلوچ کے آنسوؤں میں چھپے ان کے درد کو محسوس کیا اور سالوں بعد شال ایک بار پھر شال(کوئٹہ) بن گیا تھا، جب ہزاروں کی تعداد میں لوگ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلیے نکل آئے۔ اور یہاں اسلام آباد میں بھی یہ بحث چل پڑا تھا کہ احتجاج کریں یا نہ کریں۔ مجھ جیسے بزدلوں نے ہزاروں تاویلیں پیش کی کہ احتجاج سے یہاں کے دوستوں کیلئے مشکلات میں اضافہ ہوگا کوئی کہتا تھا یہاں کے تعلیمی اداروں میں آئندہ بلوچ طالبعلموں کا داخلہ ممنوع ہوگا اور کسی کو سکالرشپ ختم ہونے کا ڈر گھیرا ہوا تھا لیکن شہید شہداد وہاں میدان عمل میں کود پڑے اور ساتھیوں کو منظم کرنا شروع کیا۔ فیس بک پہ ایونٹ بنانے سے پوسٹر بنانے تک، سوشل میڈیا کیمپینگ سے پریس کلب کے نعروں تک شہداد آگے تھا، شہداد کے یوں دلیرانہ خود کو آگے آگے ہونے پہ ہم پریشان بھی تھے اور غصہ بھی، کیونکہ ہم اسے کھونا نہیں چاہتے تھے، ہم ایک اور فرزند کو لاپتہ نہیں دیکھنا چاہتے تھے لیکن ہمیں کیا خبر تھا کہ شہداد پیدا ہوا ہے دُرا بننے کیلئے، وہ اپنا فیصلہ شاید بہت پہلے کر چکا تھا۔
اس لیے وہ آگے آگے تھا۔ اس کے ہاتھوں میں مائیک تھا اور اس کے نعرے قابض کے بلندوبالا دیواروں سے ٹکرا کر واپس آرہے تھے اور وہ بلندوبالا عمارتیں، بے بس بلوچ طالبعلموں کے نعروں کا مسخرا اڑا رہے تھے۔ لیکن شہداد کو اس سے سروکار نہیں تھا۔ وہ بولے جا رہا تھا۔
“ساتھیوں، جیسے کہ آپ سب جانتے ہیں بلوچستان میں آئے روز لوگوں کوجبری لاپتہ کرنا معمول بن گیا ہے ہم یہاں سیما بلوچ سے اظہار یکجہتی کرنے آئے ہیں، جن کا بھائی شبیر بلوچ دو سال سے لاپتہ ہے، ہم انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ لاپتہ افراد کی بازیابی میں اپنا کردار ادا کریں”
لیکن شہداد جان چکا تھا دشمن ان اپیلوں کو نہیں سمجھے گا، ان نعروں کو، ان سسکیوں کو، ان آنسوؤں کو کبھی نہیں سمجھے گا، اس لیے اس نے اپنے اگلے منزل کا انتخاب کیا تھا
اسلام آباد میں اس کے نعروں کو نہیں سنا گیا تو وہ بھگت سنگھ کا وہ قول دہرانے گیا کہ
“جابروں اور قبضہ گیروں کو ہماری آوازیں سنائی نہیں دیتی، اس لیے ان بہروں کو اب بندوق کی آواز سے اپنی بات سنانی پڑے گی”
اور شہداد شورپارود میں نعروں کے بجائے دشمن سے بندوق کی گن گرج میں اپنی بات سنا رہا تھا
جاری ہے
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔