بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 3948 دن مکمل ہوگئے۔ نیشنل پارٹی کے عبدالغفار قمبرانی نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی جبکہ لاپتہ انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین بلوچ کے لواحقین نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔
اس موقع پر وی بی ایم پی کے رہنما ماما قدیر بلوچ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں بلوچ نے ایک مستحکم حیثیت نمایاں کی ہے۔ آج بیشتر ممالک میں بلوچ مسئلے پر بولا اور لکھا جاتا ہے اور تاریخ بھی ہمیں یہی بتاتی ہے کہ پرامن جدوجہد کے لیے آواز اٹھانا بہت ضروری ہے۔ امن پسند اقوام اگر اس خطے میں امن دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کا ساتھ دیں۔
انہوں نے کہا کہ تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ جن قوموں نے بے خوف ہوکر طاقت کا مقابلہ کیا وہ سرخرو ہوگئے اور جو خوفزدہ ہوکر خائف رہے وہ صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ مظلوموں سے چھینی گئی انسانیت کو ظالم اور مضبوطی سے جکڑ کر ہمیشہ کے لیے درگور کرنا چاہتے ہیں اور اس کے آثار تک مٹانا چاہتے ہیں تاکہ بحیثیت ایک الگ قوم ان کی شناخت رہے مگر بلوچ جیسے زندہ ضمیر و بیدار قوم کے ساتھ یہ رویہ اور سوچ پہلے ہی دم تھوڑ چکی ہے۔
کیمپ میں موجود لاپتہ راشد حسین کے لواحقین نے کہا کہ راشد حسین کے بازیابی اور انہیں منظر عام پر لانے کیلئے ہم تاحال منتظر ہے۔ پاکستان کے اداروں کی جانب سے راشد حسین کو اشتہاری قرار دینا ہمارے خدشات میں مزید اضافے کا سبب بن رہا ہے کیونکہ متحدہ عرب امارات اور پاکستان نے ملکر کر راشد حسین کو جبری طور پر لاپتہ کیا اور شواہد کے تحت راشد حسین پاکستان کے خفیہ اداروں کی تحویل میں ہے لیکن پاکستان پہلے کی طرح لاپتہ افراد کے حوالے سے انکاری ہے۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ راشد حسین کے زندگی کو شدید خطرات ہے، راشد حسین پاکستان کے تحویل میں لیکن اداروں کی جانب سے انہیں اشہتار قرار دیا گیا۔ ہمیں خدشہ ہے کہ راشد حسین کو صحافی ساجد حسین کی طرح ماورائے عدالت قتل کرکے کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے۔
ماما قدیر بلوچ نے انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ راشد حسین کے بازیابی کے حوالے سے اپنا کردار ادا کریں۔