بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 3965 دن مکمل ہوگئے۔ مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اس موقع پر کہا کہ وی بی ایم پی بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے پاکستانی آئین و قانون اور عدالتوں پر یقین رکھنے والی ایک تنظیم ہے جوکہ گذشتہ گیارہ سالوں سے یہ مطالبہ کرتا آرہا ہے کہ اگر عدالت سمجھتی ہے کہ کوئی بھی شہری ریاست کے خلاف کسی غیر آئینی سرگرمی میں ملوث ہے تو انہیں گرفتار کرکے عدالتوں میں پیش کیا جائے عدالتیں جو بھی سزائیں دیتی ہے ہمیں منظور ہے مگر فوج شہریوں کو لاپتہ کرکے آئین پاکستان، عدلیہ کی تضحیک کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کرونا کے وبا کے دنوں میں اور رمضان کے مبارک مہینے میں فوجی آپریشن، بلوچوں کی جبری گمشدگی، گھروں، مال مویشیوں، سواریوں کے لوٹنے کے بعد جلانے کے عمل میں تیزی آئی ہے۔ اس وقت بیشتر علاقے آرمی کے محاصرے میں ہیں اور ہمیں بلوچستان کے بیشتر علاقوں سے معلومات اکھٹا کرنے کیلئے آزادانہ رسائی حاصل نہیں ہے۔
ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ اس وقت ایک اندازے کے مطابق 53 فرزندوں کے جبری گمشدگی اور 18 ہزار سے زائد فرزندوں کو پاکستان آرمی نے شہید کیا ہے۔ اس ظلم ستم کے تناظر میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز ہر عید کی طرح اس عید کو بھی شال میں پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ عید کے دن وی بی ایم پی کا گیارہ سال سے جاری کیمپ صبح گیارہ بجے سے شام چار بجے کھلا رہے گا اور ڈھائی بجے مظاہرہ ہوگا۔ اس دوران سوشل میڈیا پر بلوچ مسنگ پرسنز کے نام پر کیمپئین بھی کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ میں کوئٹہ میں موجود تمام شعبہ زندگی سے وابسطہ انسان دوستوں سے اپیل کرتا ہوں کہ ہمارے مظاہرے میں شرکت کریں اور اگر آپ دنیا میں کہیں بھی موجود ہیں تو برائے کرم آن لائن کیمپئین میں حصہ لیں۔