بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 3972 دن مکمل ہوگئے۔ سیاسی و سماجی کارکن ڈاکٹر عبدالحکیم لہڑی نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے رہنما ماما قدیر بلوچ نے اس موقع پر وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ آقا کبھی بھی نہیں چاہتا کہ اس کا غلام تعلیم حاصل کرے اپنے حقوق کی پہنچان کرسکے اور شعور یافتہ بن کر دنیا کو اپنی نظروں سے دیکھ سکے۔
انہوں نے کہا کہ آقا چاہے جاگیردار ہو، سردار، چوہدری، وڈیرہ کی شکل میں ہو یا قبضہ گیر ریاست کی شکل میں ہو۔ وہ اپنے غلام کو ہمیشہ اپنے پاوں کے نیچے دبوچتا ہے تاکہ وہ شعور سے دور رہے۔
ماما قدیر نے کہا کہ اس مقصد کے لیے ریاست طرح طرح کی چالیں چلاکر مادر وطن کے بیٹوں اور بیٹیوں کو تعلیم اور شعور سے دور رکھنے کی کوشش کی۔ ان کا پہلا ٹارگٹ بلوچوں کو ان کی زبان اور کلچر سے دور رکھنے کی کوشش تھی جس میں وہ کامیاب نہیں ہوا۔
ماما قدیر بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ نوجوانوں نے ان سب چیلنجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے تعلیمی جدوجہد کو آگے بڑھایا تو اس وقت بلوچستان کا شہر شال پر پڑھائی میں پورے بلوچستان میں ٹاپ پر تھا مگر قبضہ گیر سامراج کو یہ برداشت نہ ہوا تو اس نے شال کے تعلیمی نظام کو بگاڑنے کی ٹھان لی تاکہ بلوچ نوجوان تعلیم سے دور رہیں۔ ہر روز وہاں کالجوں پر چھاپے مارکر طالب علموں کو لاپتہ کیا گیا، یونیورسٹی اور کالجوں کو ایف سی کی تحویل دیا گیا تاکہ خوف کا ماحول قائم کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ شعور سے لیس بلوچ نوجوانوں نے کبھی ہمت نہیں ہاری۔ ان ہی چند سالوں میں بلوچستان کے شعور یافتہ لوگوں نے اپنے آپ کو تعلیم کی طرف متوجہ کرکے سکالر شپ کے ذریعے اسلام آباد، لاہور اور مختلف یونیورسٹیوں میں جانے لگے۔َ