کرنل کی بیوی اور بلڈی سویلین – رضوان عبد الرحمٰن عبد اللہ

302

کرنل کی بیوی اور بلڈی سویلین

تحریر: رضوان عبد الرحمٰن عبد اللہ

دی بلوچستان پوسٹ

ملک کے ایک طاقتور ادارے کے، طاقتور آفسر کی، طاقتور رشتے میں منسلک خاتون نے بلڈی سویلین کی لگائی گئی رکاوٹ کے سامنے رکنا گوارہ نہیں کیا، اور یہی وجہ کرنل صاحب کی بیوی اور بلڈی سویلین کے درمیان یک طرفہ ’’تُو تڑاخ‘‘ کا باعث بن گئی۔

خاتون کی سمجھداری کہیں کہ انہوں نے صرف صلواتیں سنانے پر اکتفا کرتے ہوئے اپنی مدد کے لئے کمک نہیں بلائی، ورنہ جنرل راحیل شریف کے دور کے وہ مناظر دوبارہ دیکھے جاسکتے تھے، جب خیبرپختون خواہ میں فوجی افسروں نے چالان کرنے پر نیشنل ہائی ویز کے افسروں کو بپچ سڑک پر خوب مارا پیٹا۔ موٹروے پولیس کی درج کرائی گئی ایف آئی آر کے مطابق، فوجی افسر اور جوان انہیں زدکوب کرنے کے بعد اٹھا کر اٹک قلعہ لے گئے، جہاں انہیں حبس بے جا میں رکھا گیا۔ بعد میں موٹروے پولیس کے اعلیٰ افسران نے منتوں ترلوں سے ان اہلکاروں کی جان خلاصی کرائی۔ معاملے کا سوشل میڈیا پر چرچا ہوا تو اس وقت کے ڈٰی جی آئی ایس پی آر جو کہ عاصم باجوہ تھے، انہوں نے یقین دہانی کروائی تھی کہ اس واقعے کو قانون کے تحت نمٹایا جائے گا۔ اب واللہ علم خطاوار کو سزائیں ہوئیں یا نہیں، یہ تو شاید مدعی کو بھی معلوم نا ہوپایا ہو گا، کیونکہ فوجی اصولوں کے مطابق حساس معلومات عام نہیں کی جاتیں۔

خیر درج ذیل واقعہ پر بھی غور کیا جائے تو اس کی صرف ایک وجہ نظر آتی ہے کہ ملک میں قانون اور آئین کی وقعت نا ہونے کی وجہ اداروں میں توازن نہیں ہے۔ لاٹھی والوں نے، لاٹھی کی وجہ سے خود کو حاکم اور دوسروں کو محکوم بنا لیا ہے۔ کرنل صاحب کی بیوی کی گفتگو بھی اسی کی غمازی کرتی ہے، ان کی ہرزہ سرائی کے پیچھے فقط متعلقہ ادارے کی برتری کا زعم نظر آتا ہے۔ جس میں وہ شاید غلط بھی نہیں، کیونکہ اگر حقائق کو پرکھا جائے تو اس احساسِ برتری کی وجوہات بھی ڈھکی چھپی نہیں۔ خاتون نے اس پھڈے میں کئی جگہ رعب جھاڑا کہ وہ کرنل کی بیوی ہیں، ایک جگہ تو ان کا منہ سے نکلا جملہ یہ تھا کہ میں آرمی آفیسر کی بیوی ہوں کوئی معمولی بات نہیں ہے! وہ جس غیر معمولی ادارے کی نسبت سے خود کو غیر معمولی قرار دے رہی ہیں، ماضی میں اس ادارے کے غیرمعمولی سربراہان پانچ مرتبہ آئین کو توڑنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ کہنے کو تو یہ غیر معمولی عمل سنگین غداری کے زمرے میں آتا تھا، جس پر وہ غیر معمولی سزاوں کی مستحق تھے، لیکن اس کے برعکس ملکی آئین نے انہیں غیر معمولی تحفظ فراہم کیا ہے۔ یوں خاتون کا اپنے غیر معمولی ہونے پر اترانا نا صرف سو فیصد بجا تھا بلکہ وہ اپنے غیر معمولی رویے پر بھی برحق تھیں۔ یہ تو سراسر بلڈی سویلین کی نااہلی تھی کہ وہ اس کا ادراک نہیں کر پائے اور اپنے معولی پنے میں آ کر گاڑی کے نیچے آنے کو تیار تھے۔

اس واقعہ میں انصاف کی امید رکھنا تو گویا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ نا تو ہمارے ہاں آئین اتنی وقعت رکھتی ہے اور نا ہی قانونی ادارے اتنی سکت رکھتے ہیں کہ وہ اپنے قدموں پر چلتے ہوئے اس معاملہ کی بابت معلوم کرسکیں۔ بے پر کی یہ اڑائی جارہی ہے کہ خاتون کے شوہر جو خود بھی دو سال قبل اسی قسم کے واقعے میں ملوث رہے ہیں، ان کو سزا کا مستحق بنایا جائے گا۔ یقین کرنا اس لئے مشکل ہے کہ ہم بلڈی سویلین اپنی اوقاتوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔