نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ دیدہ دانستہ طور پر بلوچ سماجی ڈھانچے کو نئے اوچھے ہتکھنڈوں سے کرپٹ مافیا کا سہارا لے کر مسخ کرنے کی مستقل اور بھرپور کوشیش ہورہی ہیں۔ بلوچ سماجی ڈھانچہ جو قبائلی نظام سے باالواسطہ پیوست ہے اس نظام میں موجود خامیوں کے ساتھ ساتھ خوبیاں بھی اپنے مثبت روایتوں کے وجہ سے موجود ہیں جن میں بزرگوں کا احترام، خواتین کی عزت، بچوں کا تحفظ ہر لحاظ سے اور حتیٰ کہ مخالفین کے ساتھ حسن و سلوک کا رویہ رکھنے کا بھی کہا جاتا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ بدقسمتی سے اس نظام کو سرکاری سرپرستی پر مبنی سرداروں اور بدنام زمانہ ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں کے ذریعے اپنے سامراجی عزائم کے تکمیل کیلئے ان روایتوں کو پاؤں تلے روندا جارہا ہے جوکہ بلوچ قومی سماج کی بنیاد ہے۔
ترجمان نے کہا کہ آواران میں 12 سالہ طالبعلم کو ڈیتھ اسکواڈ کے کارندوں نے اغواہ کرکے اس کے ساتھ زیادتی کرکے نہ صرف اُس کے خاندان بلکہ پورے سماج کے اندر ایک بے چینی سی کیفیت پیدا کردی ہے۔ مزید یہ کہ ماضی میں بچوں کو ہراساں و جنسی زیادتی کے واقعات کے ساتھ اس واقعے کے ساتھ تسلسل کے ساتھ جوڑ کر بلوچ قوم کے اندر کرپٹ اور کرمینل عناصر کو تقویت دی جارہی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اس قسم کے جنسی ہراسانی کے واقعات ان بلوچ علاقوں میں زیادہ دیکھنے کو مل رہی ہیں جہاں فوجی آپریشن اپنے عروج میں ہوتے ہیں لہٰذا اس پالیسی کے خلاف حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے جس کے لیئے ان مافیا کی پشت پناہی کرنے کی بجائے ایسے عناصر کی بیخ کنی کرنی چاہیئے۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی مطالبہ کرتی ہے کہ فوری طور پر حکمت عملی کے ذریعے بلوچستان میں چائلڈ پروٹیکشن کے ملکی و بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں ہنگامی اجلاس طلب کرکے بچوں اور عورتوں سمیت ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد (بلخصوص جہاں فوجی آپریشن اپنے عروج پر ہے) تحفظ کو یقینی اور ممکن بنایا جاسکے۔ بلوچ قوم سے اپیل ہے کہ وہ ان مافیا کو بلوچ سماج کے اندر پیوست ہونے سے روکنے میں اپنی ہر ممکن کوشش کرکے ان منفی عناصر کی حوصلہ شکنی کرے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے قبائلی ڈھانچے کو بلوچ قومی مفاد کے دائرے میں لانے کی بہت سخت ضرورت ہے تاکہ نوآبادیاتی پالیسوں کو ان کے انجام تک پہنچایا جاسکے۔