بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ 28 مئی کا دن بلوچ قوم، خطے اور عالم انسانیت کے لئے ایک سیاہ دن ہے۔بائیس سال پہلے اس دن راسکوہ چاغی میں بلوچ آبادیوں کے بیچ تباہ کن جوہری دھماکے بلوچ قوم اور انسانیت کے خلاف پاکستان کی جانب سے نفرت کا اظہار اور جنگی جرائم کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ 28 مئی ہمیں یاد دلاتا ہے کہ پاکستان نے چولستان جیسے اپنے ریگستانی علاقے کے بجائے بلوچ کے آباد و شاداب اور قدرتی وسائل سے مالامال خطے کوایٹم بم جیسے تباہ کن ہتھیار ذریعے راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا۔ یہاں اب صدیوں تک دھول ہی اڑے گا اور یہ سرزمین چارہ و سبزہ کے لئے ترستا رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ28 مئی کو پاکستان نے نہ صرف بلوچ سرزمین کے ایک اہم حصے کو خاک کے ڈھیرمیں تبدیل کر دیا بلکہ بلوچ سرزمین کو ایٹمی تجربوں کے تابکاری کے نہایت خطرناک اثرات کے مدمقابل لاکھڑا کردیا۔ دھماکوں کے بعد کینسر کا شرح پورے خطے میں سب سے زیادہ ہے۔ ہزاروں لوگوں کو کینسر تیزی سے ایک عفریت کی طرح نگل رہاہے۔ چاغی اپنے مالداری، بارانی زمینداری اورقدرتی چشموں کے لئے مشہورخطہ تھا۔ دھماکوں کے بعد نہ صرف چاغی اورگردونواح کے علاقے شدید قحط کے لپیٹ میں آئے بلکہ بلوچستان کے آب وہوا پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے۔ ایک جانب کینسراور دوسری بیماریوں نے بلوچ پر ہلہ بول دیا تو دوسری جانب قحط سالی و بھوک نے اس آباد خطے کوافریقی ریگستانوں سے بدترصورت حال سے دوچار کردیا۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا کہ دنیا نے ہیروشیما اور ناگاساکی میں ایٹمی تباہ کاریوں کا بخوبی مشاہدہ کیا ہے اور یہ عالم انسانیت کے تاریخ کا اتنا بھیانک اور تلخ تجربہ تھا کہ ایٹم بم گرانے والا امریکہ آج ایٹمی ہتھیاروں کے روک تھام کا سب سے بڑا داعی بن چکا ہے۔ اس تباہ کن تجربے نے انسانی برادری کو مجبور کردیا کہ جوہری ہتھیاروں کا خاتمہ یا انہیں تعداد میں کم سے کم رکھا جائے۔ یہ کوششیں عالمی سطح پر آج بھی جاری ہیں۔ انہی کاوشوں کی وجہ سے ایٹمی ہتھیار والے ممالک کی تعداد محدود ہے۔ لیکن پاکستان جیسے بدمعاش ریاست کے سامنے عالمی کوششیں نقش برآب ثابت ہوئے۔ اس سے یہ تاثر ضرور ابھرتا ہے کہ کسی نہ کسی سطح پر اس خطے میں عالمی مفادات پاکستان کے لئے جوہری ہتھیاروں کا راہ ہموار کرگئے جس کا خمیازہ بلوچ قوم و بلوچ وطن کو بھگتنا پڑا۔
انہوں نے کہا جوہری دھماکے بلوچ وطن پر قبضے کے بعد پاکستان کا دوسرا بڑا حملہ تھا۔ بلوچ قوم کے لئے یہ محض دھماکے نہیں ہیں بلکہ بلوچ نسل کشی کا بدترین مظہر ہیں۔ ایک جانب پاکستان نے بلوچ سرزمین پر جوہری دھماکے کردیئے جس کے اثرات سے بلوچ صدیوں تک نہیں نکل پائے گا۔ دوسری جانب پاکستان کثرت سے اپنے جوہری اور حیاتیاتی ہتھیار بلوچ سرزمین پر ذخیرہ کررہا ہے۔ بلوچ قیادت نے بہت پہلے انکشاف کیا تھا کہ خضدار سمیت مختلف علاقوں میں پاکستان جوہری ہتھیار ذخیرہ کررہا ہے۔ بعد میں اس کا عالمی تحقیقاتی اداروں نے بھی تصدیق و توثیق کردی۔ پاکستان کے جوہری ہتھیار تیاری کے مراحل سے لے کر تجربہ اور ذخیرہ کرنے تک بلوچ سرزمین پر اور بلوچ وسائل سے ہورہے ہیں۔ کیونکہ یورینیم بلوچ سرزمین سے نکالا جارہا ہے، تجربے کے لئے بلوچ سرزمین کا انتخاب کیاجاتاہے۔ ایٹمی ہتھیار بلوچ سرزمین پر ذخیرہ کئے جارہے ہیں۔ حتیٰ کہ ایٹمی فضلہ بھی بلوچ سرزمین کے مقدر میں لکھاگیاہے۔ یہ عالمی اصولوں کی خلاف ورزی اور بلوچ نسل کشی ہی ہے۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا بلوچ قوم، بلوچ سیاسی پارٹیاں اور بلوچ نیشنل موومنٹ ہر سطح پر پاکستان کے جارحانہ اور توسیع پسندانہ عزائم کا مزاحمت جاری رکھیں گے۔ کیونکہ پاکستان کے جوہری ہتھیار نہ صرف خطرناک اور غیرمحفوظ ہاتھوں میں ہیں بلکہ مذہبی جنونیت اور دنیا کو فتح کرنے کی پاکستانی ذہنیت کسی بھی عنوان پر ایٹمی و حیاتیاتی ہتھیاروں سے کم نہیں۔ پاکستان نے جس فلسفے، خطے اور دنیا پر غالب آنے کے تصور کے تحت ایک درندہ و دہشت گرد سات لاکھ کی فوج اور لاکھوں مذہبی جنونی پراکسی تیار کئے ہیں۔ اگر عالمی برادری نے پاکستانی جوہری ہتھیاروں کو عالمی تحویل میں لینے کے عملی اقدام نہیں اٹھائے گئے تو وہ دن دور نہیں کہ یہ ہتھیار عالم انسانیت کو ایک عظیم المیے سے دوچار کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ عالمی طاقتوں کو اس غلط فہمی سے ہرصورت نکلناچاہئے کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔ دنیا کو اس خوف سے نکلنے کی ضرورت ہے کہ اس خطے میں جغرافیائی تبدیلی یا محکو م قوموں کے تحریک آزادی کی حمایت سے یہ ہتھیار شدت پسندوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ہتھیار پہلے ایک دہشت گرد ریاست اور اس کے دہشت گرد فوج کے ہاتھ میں ہیں۔ بین الاقوامی اداروں اورعالمی طاقتوں کا خوف ہی دنیا کو ایک بڑی تباہی سے دوچار کرے گا۔