پابندِ سلاسل
تحریر: واھگ بزدار
دی بلوچستان پوسٹ
۵جنوری ۱۹۳۸کو افریقہ کے شہر کینیا کے گاؤں لیمورو میں جنم لینے والے شہرہ آفاق دانشور گوگی کی آنکھ ایک ایسے وقت میں کھلی، جب انگریز استعمار افریقہ میں بطور قبضہ گیر براجمان تھا۔ ایسے میں جب ہر طرف ظلم وبربریت کا سماں تھا، قتل و غارت عروج پر تھی تو وران گوگی نے قبضہ گیر کے ظلم و ستم کو بہت قریب سے دیکھا۔ گوگی نے اپنی قوم کی بے بسی، غربت اور زبوں حالی کو بچپن سے محسوس کیا اور طالبعلمی کے دور میں ظلم و جبر کے خلاف قلم کو اپنا ہتھیار بنا لیا۔ گوگی کی کتاب ”Detained” گوگی کی پرسنل ڈائری ہے۔ جس کو گوگی نے جیل میں حراست کے دوران ٹوائلٹ پیپرز پر لکھا تھا۔ گوگی کی کتاب ”Detained” اُس کے ذاتی تجربات، کینیا کے سماج اوراُس وقت کے حالاتِ زندگی پر لکھی۔ اس کتاب میں گوگی نے گورنمنٹ کے فرسودہ پالیسیوں اور زمینی حقائق کوعوام کے سامنے آشکار کرنے کی کوشش کی جس سے کینیا کی عوام بے خبر تھی۔
قبضہ گیر اور استحصالی قوتیں اپنی استحصالی پالیسیوں کو عملی شکل دینے کے لیے ہمیشہ وہاں کے باشندوں کی زبان کو مسخ کرکے سامراجی زبان مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس کا واحد ذریعہ تشدد ہی کے شکل میں ہوتاہے۔ قبضہ گیر مقامی دانشوروں اور اُن کی زبان کو ایک زہر سمجھتی ہے جس کے خاتمے کے لیے وہ ہر اُس ہتھکنڈے کا استعمال کرتی ہے جو قبضہ گیر کے بس میں ہو۔ اسی طرح گوگی اور گورنمنٹ کے درمیان اُس وقت چپقلش پیدا ہوئی جب 1977 میں گوگی نے اپنی کتاب (I will marry when I want) گیکیوں زبان میں لکھی جو اُس کی مادری زبان تھی۔ اپنی اِس کتاب میں گوگی نے سرکار کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ پھر کچھ وقت بعد گوگی کی اس کتاب پر گورنمنٹ کی طرف سے پابندی لگادی گئی۔ 30اور 31 دسمبر کی درمیانی شب کو گورنمنٹ نے کینیا کے اس مشہور دانشور، لکھاری اور تنقیدنگار کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا۔ حالانکہ گوگی کو گرفتار کرنے کے لیے سرکار کے پاس کوئی ایسا ثبوت نہیں تھا، جس کو بنیاد بنا کسی کو گرفتار کیا جائے۔ لہذا گوگی کا واحد جرم مادری زبان میں کتاب کی تحریر تھی جسے انھوں نے ان لوگوں کے نام کیا جنہوں نے اپنے لوگوں، وطن، زمین، زبان کے لیا قربانیاں دی تھیں۔ گوگی نے اس کتاب کو اُن انسانوں کے نام کیا جنہوں نے ہر ظالم و جبر کے سامنے ڈر اور لالچ کی بجائے قربان ہونے کو ترجیح دی۔
واجہ گوگی چونکہ پسے ہوئے طبقے کی آواز ہیں اور ان کے لیے لکھتے اور بولتے تھے۔ گوگی اپنی اس کتاب میں لکھتا ہے کہ قبضہ گیر مقامی لوگوں سے نفرت کرتا ہے اور ان کو جانوروں کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ گوگی یہاں کہتے ہیں کہ افریقہ کی آزادی سے عوام کو کچھ فائدہ نہیں ہوا، آج بھی عوام اس طرح ذلیل ہے۔ جس طرح برٹش قبضے کے وقت تھی، ماؤ گوریلا فائٹرز جو اس وقت نوآباد کار سے لڑ رہے تھے اور آج انہی نام نہاد لوگوں کی حکومت ہے لیکن لوگوں کی زندگیوں میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ جب جیل سے رہائی ملی تو اس نے میڈیا والوں سے کہا کہ آپ لوگ خود میرے پاس انٹرویو لینے کیوں نہیں آتے ہو اپنے ایجنٹوں کو میری طرف بھیجتے ہو جو سراسر غلط فہمی پیدا کر رہے ہیں۔ بقول گوگی شروع شروع میں مجھے پریس والوں سے ہمدردی تھی لیکن بعد ازاں وہ سرکار کے دلال بن گئے اور لوگوں کو حقائق سے دور رکھتے تھے۔ یہی وہ میڈیا ہے جس نے میرے جیل جانے پر بہت سے غلط پروپیگنڈے کیے اور سرکار کی دلائل کو مضبوط کرنے کی کوشش میں لگی رہی۔
اپنی اس کتاب میں گوگی لکھتے ہیں کہ جو اخبارات کچھ حد تک سچ لکھتے اور بولتے تھے پہلے تو گورنمنٹ نے ان کے لوگوں کو گرفتار کیا اور جب یہ حربے کام نہ آسکے تو گورنمنٹ نے میڈیا والوں کو سرکاری ”اشتہار” دینا بند کر دیے۔ اسکے علاوہ گورنمنٹ نے پرائیویٹ کمپنیوں کو بھی یہ کہا کہ آپ ان میڈیا والوں کو اشتہار نہ دیں جو گورنمنٹ کے خلاف پروپیگنڈہ کر رہے ہیں اور ایسا کرنے پرآپکی کمپنیوں کو سیل کردیا جائے گا۔ ان تمام حالات نے افریقہ کے لوگوں کو پریشانی اور زبوں حالی کے سوا کچھ نہیں دیا جو کہ سرمایہ دارانہ نظام کے نیچے زندگی گزار رہے تھے۔ ان کو ڈرایا گیا اور جیلوں میں ڈال دیا، اب وہ لوگ گونگے ہو گئے اور اپنی بے بسی کا تماشا خود اپنی آنکھوں سے دیکھنے میں مصروف تھے۔
بقولِ گوگی کہ جب وہ جیل سے باہر آیا تو اس کو معلوم ہوا کہ کس طرح گوگی کی گرفتاری کو گورنمنٹ نے ”justify” کیا اور چند اخبار کے حوالہ جات کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بدھ کے روز گوگی کو اس لئے گرفتار کیا گیا کہ ان کہ گھر سے چینی ادب برآمد ہوا۔ دوسرے اخبار کا حوالہ دیتے ہوئے واجہ گوگی کو اس لیے گرفتار کیاگیا کہ وہ سوویت یونین کو سپورٹ کررہے ہیں اور افریقہ کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں حالانکہ بقولِ گوگی کے وہ 1975 میں سوویت گئے تھے اور اس بات کو گورنمنٹ مجھے سے بہتر جانتی ہے کیونکہ وہاں مجھے گورنمنٹ کے لوگوں نے وصول کیا تھا۔
گوگی اپنی اس کتاب میں مزید نبشتہ کرتا ہے کہ میرے خلاف ہونے والے تمام منفی پروپیگنڈوں کے پیچھے گورنمنٹ اور اُس کے ایجنٹ کار فرما تھے، جنھیں میری تحریروں سے شدید اختلاف تھی کیونکہ یہی وہ عناصر تھے جو کسی بھی صورت میں عوام کو حقیقت سے دور رکھنے اور حکومتی موقف کی ترویج کو اہم گردانتے ہیں جبکہ میں اس کے برعکس حقیقت کو عوام تک پہنچانے کی کوشش کر رہا تھا، جو سرمایہ دار طبقے کو ناگوار گزرتی ہے۔ گورنمنٹ نے میڈیا اور دوسرے ذرائع کے ذریعے عوام میں یہ بات مشہور کی کہ گوگی افریقہ کے خلاف ہے اور اس کو افریقہ کی ترقّی ایک آنکھ نہیں بھاتی ہے کیونکہ گوگی باغی، سوشلسٹ، کیمونسٹ ہے۔ جب وہ جیل میں بند تھے تو ان پر چارلیس نجنو نے حملہ کیا جو کہ خود کالونیل چیف کا بیٹا تھا۔ مجھ سمت 18 آدمیوں کو جیل میں بند کر دیا گیا میرے تمام ساتھی سیاسی قیدی تھے، جن کو گورنمنٹ نے بغیر کسی وجہ سے گرفتار کیا ہے۔ گوگی لکھتا ہے پولیس والوں نے مجھے الگ سے کوٹھی میں بند کر دیا اور مجھے کسی سے ملنے کی کوئی اجازت نہ تھی میرے کوٹھی پر بہت بڑا پہرہ تھا۔
گوگی اپنی اس کتاب میں لکھتا ہے اس رات کو میں رات کو دیر تک بیٹھا ہوا تھا Jamo kaynte کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ جس نے اپنی آزادی کے لیے انگریز سرکار کے ساتھ جنگ کی اس کو بھی اس جیل میں رکھا گیا اور انھی سوچوں میں ہی گم تھا کہ اچانک ایک پولیس والا آیا اور کہا کہ آپ ابھی تک سوئے کیوں نہیں تو میں نے پولیس والے کو کہا کہ آپ سیاہ فام اور سفید فاموں میں فرق نہیں کیونکہ آپ ان کے راستے پر چل رہے ہو اور ہر کوئی جو اپنے عوام آزادی کی بات کرتا ہے۔ تو آپ لوگ اس کو زندان میں بند کر دیتے ہو کیونکہ “کل یہاں جیمو بند تھا اور آج میں “۔
گوگی مزید لکھتا ہے کہ میں جب سولہ سال کا تھا۔ تب مجھے معلوم ہوا کے ”Nkrumah” نے اپنی آپ بیتی کو ٹوائلٹ پیپرز پر لکھا لیکن میں نے اس وقت اس بات کو سنجیدہ نہیں لیا۔ لیکن آج مجھے معلوم ہوا کہ کاغذ چاہے کسی بھی طرح کا ہو سیاسی قیدیوں کے لیے اور لکھنے والوں کے لیے لازمی ہے کیونکہ سیاسی شخص اُس کی اہمیت کو اچھی طرح جانتا ہے اسی دوران میں نے بھی ٹوائلٹ پیپرز پر لکھنا شروع کر دیا۔
بقولِ گوگی لکھنا تو ویسے بھی بہت مشکل کام ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب کسی شخص کو اس کی مرضی کے خلاف بغیر کسی وجہ سے بند کر دیا جائے۔ جیل میں انسان کو طرح طرح کے خیالات آتے ہیں۔ انسان بہت مشکل سے ہی کسی چیز کے بارے میں لکھ سکتا ہے۔ کیونکہ خیالات میں تضادِ جنم لیتے ہیں۔
گوگی اپنی اس کتاب میں تمام اساتذہ کرام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ان ہی کی بدولت آج وہ لکھ سکتا ہے۔ مجھے جیل میں بہت سی چیزوں کے بارے میں جاننے کا موقع ملا، مجھے گکیوں زبان کے بہت پرانے لفظوں سے واقفیت ہوئی۔ بقول گوگی لکھتے وقت مجھے سب سے زیادہ جس چیز نے پریشان کیا وہ ہمارے سماج میں عورتوں کی داستانیں تھی کیونکہ ہمارے سماج میں عورت نے آخری درجے کی گھٹیا زندگی گزاری اور ان کے اس تعاون اور قربانیوں پر نہ تو کسی نے کچھ لکھا اور نہ کسی نے اُن پر بات کرنا گوارا کیا۔ واجہ گوگی اس وقت جیل میں تھے جب ان کے گھر بیٹی کا جنم ہوا۔میں نے ایک بڑے عرصے تک اپنی بیٹی کو تصویروں میں دیکھا اور اس کے بارے میں سوچتا رہا ان خیالات نے مجھے اور زیادہ مضبوط کر دیا تھا۔
گوگی نے اپنی کتاب میں لکھا کہ کینیا کی آزادی کے بعد نیو کالونیلزم کے دوران افریقہ کے تمام قوم دوست اور وطن دوست لوگوں کو زندانوں میں بند کردیا گیا اور ان کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا۔ گوگی کا خیال ہے کہ یہ زندان یا جیل کرنے کا فلسفہ قبضہ گیر کا ہی ایک حربہ ہے، جس کا واحد مقصد لوگوں کے اندر خوف کو جنم دے کر اپنی استحصالی پالیسوں کو عملی شکل دیناہوتا ہے۔ سیاسی قیدیوں کو زندانِ یا جیل میں بند کرنے کا مقصد صرف یہ نہیں کہ ان کو جسمانی اور ذہنی حوالے سے دور کی جائے بلکہ یہ اس ان کو جیل میں بند کرنے کے بعد وہ اپنی کالونیل پالیسیوں کو بغیر کسی رکاوٹ کے عملی جامہ پہنانا چاہتا ہے۔
گوگی اپنی اس کتاب میں اپنی گرفتاری کے بارے میں لکھتا ہے کہ 30اور 31 دسمبر کی درمیانی شب پولیس نے میرے گھر کو چاروں طرف سے گھیرے میں لے کر بزور طاقت گھر میں ایسے داخل ہوئے جیسے کسی خطرناک قسم کے مجرم کو گرفتار کیا جا رہا ہو۔ انھوں نے پورے گھر کی چھان بین کی اورکمرے میں داخل ہوئیں اور تمام کتابوں کو ضبط کر لیا گیا۔ پولیس والوں نے گوگی کی کتابوں کو حراست میں لینے کے بعد گوگی کو اپنے ساتھ چلنے کا کہا۔ تو گوگی نے پولیس والوں سے پوچھا کہ کیا آپ مجھے گرفتار کرنے آئے ہو؟ پولیس والوں نے کہا کہ نہیں آپ ابھی ہمارے ساتھ پولیس سٹیشن چلیں کل تک واپس آپ اپنے گھر واپس آجائیں گے۔ جب مجھے جیل میں بند کر دیا گیا تو صبح ایک پولیس افسر نے اپنا تعارف کروایا اور مجھ سے کہا کہ کیا آپ کا آبائی گھر رفت گاؤں میں ہے جس کے بارے میں آپ لکھ رہے ہیں تو گوگی نے جواب دیا نہیں میں صرف ان لوگوں کی تکلیفوں اور ان پر ہونے والے مظالم کیخلاف لکھتا ہوں۔
گوگی اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ شروع میں مجھے 16 گھنٹوں کے لئے جیل کے کوٹھی میں رکھا جاتا تھا اور باقی وقت میں ہمیں کچھ ورزش کرنے کی اور پڑھنے کی اجازت دی جاتی۔ تمام قیدی اس طرح اپنی زندگی کے دن گزار رہے تھے، میں کبھی کبھار ان کے بارے میں سوچتا کہ یہ لوگ اس زندگی کو کس طرح سے ترتیب دے رہے ہیں۔ ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ ” ایک دن ایک شخص میرے کمرے میں داخل ہوا اس کے ہاتھ میں دو بائیبل تھے جو کہ انگریزی اور مقامی زبان میں لکھی ہوئے تھے۔ اانھوں نے اپنی بات کا آغاز مذہبی حوالے سے کیا اور کہا کہ ہر شخص کی جان خدا کے قبضے میں ہے اور خدا تمام انسانوں اور حالات کو چلا رہے ہیں اور ہم اس کے حکم کے بغیر کچھ نہیں کرسکتے۔ میں نے گستاخانہ لہجے میں بات کی کہ آپ کا خدا کیوں انسانوں کو ذلیل کر رہا ہے؟ سینکڑوں سالوں سے اس خدا کے نام پر آپ جیسے خود ساختہ مذہبی لوگوں نے اپنی مفاد کے لئے ہزاروں انسانوں کی زندگیوں کو اجیرن بنایا ہوا ہے۔ آپ کا خدا کیوں افریقہ کے لوگوں کا مسئلہ حل نہیں کرتا؟ آپکے خدا کو کیوں افریقہ کے باسیوں پر ہونے والی ظلم وستم اور اُنکی ذلت کیوں نظر نہیں آ رہی ہے؟ آدمی اٹھتے ہوئے یہ کہہ کر چلا گیا کہ” آپ پڑھے لکھے لوگوں کے پاس کرنے کو باتیں بہت ہیں “۔
گوگی اپنے کتاب میں لکھتے ہیں کہ ایک دن ایک پولیس والے انھیں یہ کہہ کر پریشان کردیا کہ” ہم جانتے ہیں کہ آپ کیا کر رہے ہو اور کیا کرنا چاہتے ہو، یہ آپ کو آخری وارننگ ہے کہ آپ اپنے کو سیدھا کر لیں اور اپنی سرگرمیوں کو روک دیں۔ یہ آپ کا یونیورسٹی نہیں جہاں آپ کاجو دل چاہے وہ کریں “۔ میرے قریب بہت سے لوگ بیٹھے تھے وہ خاموشی سے اس پولیس والے کو دیکھ رہے تھے، میں نے پولیس والے کو کہا کہ آپ اپنا یہ ڈرانے کا کام بند کریں، میں یہاں آپ لوگوں کے ہاتھ میں ہوں میں کچھ نہیں کررہا، جس سے آپ واقف نہیں۔ اگلے دن ایک پولیس والے نے مجھے سے کہا آپ اس کی باتوں پر دھیان نہ دیں کیوںکہ یہ ان کے حربے ہیں، جو لوگوں کو ڈرانے کے لئے استعمال کرتے ہیں، اس پولیس والے نے مجھے سے کہا آپ بہت اچھا کام کر رہے ہیں اور آپ کو اپنے کام میں تیزی لانی ہے اور لوگوں کو شعور دینا ہے، اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تو تاریخ آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔
بقول گوگی جیل کے دوران مجھے اکثر اپنی چھوٹی بیٹی یاد آتی، جس کو میں نے صرف تصویر میں دیکھا تھا اور یہ سوچ کر خود کو دلاسہ دیتا کہ میری بیٹی اچھی طرح جانتی ہے کہ مجھے کو اپنے لوگوں کی آزادی اور اپنے وطن کی محبت میں گرفتار کیا گیا ہے جس کا مجھے اور میری بیٹی کو فخر ہوگا۔
گوگی اپنے اس کتاب میں لکھتا ہے کہ کینیا کے آج جو حالات ہیں ان تمام کا زمہ دار باہر سے آئے ہوئے لوگ ہیں، جو یہاں آکر آباد ہو گئے اور ہم پر حکمرانی کر رہے ہیں اور انہوں نے کینیا کہ سماجی نظام کو مکمل طور پر تباہ و برباد کر دیا ہے۔ وہ اکثر اس بات کو دہراتے ہیں کہ افریقی لوگ جانور ہیں اور باہر سے آئے ہوئے لوگوں نے ان کو ترقی دی ہے۔ بقول گوگی انگریز حکومت ہر وقت یہ کہتی کہ یہاں کی بربادی کا وجہ یہاں کے قبائلی لوگ ہیں اور اس لئے ان کے ہاں برسوں سے ترقی نہیں ہوئی۔ اکثر گورے لوگ اس بات کو دہراتے ہیں کہ شکر کرو ہم سفید فام لوگ یہاں آباد ہو گئے اور آپ کو ترقی دی اگر ہم نہ آتے تو آپ لوگ مکمل طور پر ختم ہو جاتے۔ برطانوی فوج کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے اپنے ایک آفیسر کو خط لکھا کہ صرف تشدد کی بنیاد پر ہم لوگوں کے اندر سے ان کے عقائد ونظریات کو ختم نہیں کرسکتے، شاید اس طرح ہمارے ساتھ کچھ وقت کے لئے چل سکیں لہذا تشدد کے علاؤہ ہمیں کوئی اور طریقہ کار سوچنا چاہیے جس کی بنیاد پر ہم مکمل طور پر کینیا کے لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر چل سکتے ہیں۔ اب ہمیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم کنیا کے لوگوں کے لیئے سکول بنائیں تاکہ اس عمل کے ذریعے ہم ان کی اچھی طرح ذہن سازی و تربیت کر کے ان کو مکمل طور پر اپنی طرح بنائیں۔ اس طرح پھر کینیا کے لوگ اچھی طرح سے ہماری تابعداری کرسکیں گے اور ان کے ہاتھوں سے ان کا استحصال کرکے اپنے مفادات کو محفوظ کر سکتے ہیں۔
بقول واجہ گوگی غلام اور مظلوم کی اپنے آقاوں سے مہر و وفا اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ قبضہ گیر اقوام کی استحصال کے ساتھ ساتھ سماج کو مزید تباہی کی طرف لے جا سکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم ادارے بنائیں اور ان کو اپنا تابعدار بنا سکتے ہیں جس کے لیے اس نعرہ کی ضرورت ہے کہ
Trust and obey, For there is no other way۔
1950میں برطانوی سامراج نے کنیا کی عوام کو زبردستی سکولوں اور کالجوں میں بھیجنے کی کوشش کی اور اس سکول میں بچوں کو پڑھایا جاتاتھا کہ آج اگر ہم آپ کو ترقی اور تعلیم نہ دیں تو ناانصافی ہوگی کیوںکہ تعلیم ہی آپ کو ایک مہذب انسان اور سماج بنانے میں مدد دے گی، جس کا واضح مقصد لوگوں کو حقیقت سے دور رکھنا تھا۔
گوگی اپنے کتاب میں نبشتہ کرتا ہے کہ برطانوی راج نے ہمارے خواتین کو بھی ایک کثیر تعداد میں زندانوں میں بند کیا اور ان کو جسمانی اور ذہنی طور پر اذیتیں دی گئی۔ 1950میں Me kitilili جو کہ ایک بہادر گوریلا جنگجوتھی۔ اس نے فوج کے کئی لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا اور ان کے سامان کو اپنے میں قبضہ میں لے لیا کیونکہ یہ ایک سیاسی عورت تھی، جس کا یقین تھا کہ ہم صرف بندوق،تلوار، کلہاڑا اور تشدد کی بنیاد پر سفید فام لوگوں کو لات مار کر اپنی سرزمین سے نکال باہر کر سکتے ہیں کیونکہ یہ صرف اسی زبان کو سمجھتے ہے۔ سرکار نے جب خواتین کی جدوجھد آزادی میں کردار کو دیکھا تو اس کو پریشانی لاحق ہوئی اس بنیاد پر اس نے بہت سے خواتین اور چھوٹے بچوں کو جیل میں بند کردیا۔
گوگی لکھتے ہیں کہ جب برطانوی فوج نے لوگوں کو تعلیم دینے کے لئے پروپیگنڈا کیا تو اس کے مقابلہ میں ماؤ گوریلا فائٹرز نے اسکے خلاف بر سرپیکار ہوتے ہوئے اپنے لوگوں کو اس تعلیم سے دور کرتے ہوئے کہا افریقی لوگوں کو اس تعلیم کی ضرورت نہیں جو سفید فام لوگ ہمارے لوگوں کو دیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اپنے لوگوں کو اس طرح کے اداروں میں بھیجنے سے ہمیں بہت بڑا نقصان ہوگا کیونکہ یہ سکول اے اور اولیول کی تعلیم اپنی زبان میں دے کر ہمارے بچوں سے اس کی زبان کو چھیننے کی ایک بڑی سازش ہے۔ یہ تعلیم ہمارے کسی کام کی نہیں کیوںکہ یہ تعلیم صرف ماہر مزدور پیدا کرے گی جو برطانوی مفادات میں ہوگی اور برطانوی سامراجی تعلیم ہماری ترقی نہیں بلکہ برطانوی مفادات کی آبیاری کرے گا اور اسی طرح برطانوی تعلیم ہمیں آزادی اور ہماری زمین واپس نہیں دے سکتی۔
ہمیں خود اپنی لوگوں کو تعلیم دینے کی ضرورت ہے جو کہ صاف اور واضح مقصد اپنے لوگوں کی مفاد اور آزادی ہے ہمیں اپنے لوگوں کو اس بات کی تعلیم دینے کی ضرورت ہے کہ دشمن کو اس سرزمین سے کیسے بیدخل کیا جاسکتا ہے، ہمیں اپنے لوگوں کو آزادی کے لئے قربان ہونے والے شہیدوں کا بتانا ہے کہ جنھوں نے اپنی سرزمین اور ہمارے لئے اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کیا۔قبضہ گیر نے اپنے ان دانشوروں کے ذریعے ہمارے سماج کو مکمل طور پر مفلوج کر دیا ہے اور اگے بھی برطانوی استعمار اس عمل کو دہرا کر مزید تباہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔انہی قبضہ گیر دانشوران نے افریقی لوگوں کو ایک سفید فام انسان بنانے کی کوشش کی اور کر رہے ہیں کیونکہ اس ہی کی بدولت وہ ہمارے تاریخ،ثفات اور تہذیب سے ہمارے لوگوں کو دور کرسکتے ہیں تاکہ اُن کو اندرونی طور پر کھوکلا کرکے تمام قومی احساس کو ختم کر دیا جائے اور شخصی مفاد ات سے خود کو لیس کریں جو دنیا کی ہر قبضہ گیر کی سازش ہوتی ہے۔پہلے تو انہوں نے ہمیں تلوار،بندوق اور تشدد کے زور پر قبضہ کیا اور آج پھر انہی سکول،کالجوں،مندر اور دوسری ذریعے سے اس غلامی کو دوام بخشنے کی مزید کوشش کر رہے ہیں یہ تمام چیز قبضہ گیر کی لٹریچر مہیا کرتا ہے۔
گوگی آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ہمارے لوگوں نے مکمل طور پر برٹش کی پالیسیوں کو بھانپ لیا اور آزادی کے لئے جنگ دینے کو ترجیح دی اس کی مشہور مثال واجہ ڈیڈن کمتی ہے جنہوں نے ہر طرح کی لالچ اور خوف کو پیچھے چھوڑ کر آزادی کے لیے پھانسی کے پھندے کو چومنے پر ترجیح دی بقول واجہ گوگی آزادی کی جستجو نے کینیا کے لوگوں سے مکمل ڈر کا خاتمہ کر دیا تھا۔ برٹش نے کینیا میں تھیٹر قائم کیا اور لوگوں مقامی لوگوں کی دل جیتنے کی کوشش کی کہ ہم آپ کے لیے بہث کچھ کرنے کوئی تیار بس صرف آپ ہمارا ساتھ دیں۔ حالانکہ ان تھیٹروں میں مقامی افراد کے جانے پر پابندی تھی اور ان تھیٹروں میں برٹش لوگ اپنے لئے سمینار منعقد کرواتے اور لوگوں کو برطانوی تاریخ اور ثقافت کے بارے میں بتاتے اور مقامی لوگوں کو سیمنار اور ڈرامہ کرنے کی اجازت نہ تھی گوگی لکھتے ہیں کہ انہوں نے ڈیڈن کمتی کی زندگی پر ایک سیمنار منعقد کرنے کی کوشش کی تو حکومت کی طرف سے ان کو روک دیا گیا۔
اپنی اس کتاب میں گوگی ایک افریقی باشندے کی کہانی بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ جب ایک شحض کو گرفتار کیا گیا تو برطانوی سپاہی نے اُن سے پوچھا کہ اب تمہارا کیس کون لڑے گا کیوںکہ آپ کینیا والوں کے پاس تو وکیل ہی نہیں۔ جس پر انھوں نے جواب دیتے ہوئے کہاکہ میرے کیس کو کینیا کی عوام لڑے گی۔ پولیس والے نے کہا کہ آپ لوگوں کے پاس کوئی تعلیم یافتہ شخص موجود نہیں اگر کینیا آزاد ہوگیا تو اس کی عدالت کو کون کنٹرول کرے گا تو انھوں نے جواب دیا کہ ہزاروں سالوں سے جب برطانیہ یہاں موجود نہ تھی تو ہم اپنا نظام خود چلا رہے تھے اور آج بھی کینیا اور افریقہ کے لوگوں میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ اپنے معمولات کو چلا سکتے ہیں۔
واجہ گوگی لکھتے ہیں کہ ہمیں جیل میں بہت ہی بری طرح سے رکھا گیا، نہ صاف اور ستھری پانی دی جاتی تھی اور نہ ہی اچھی طرح کا خوراک جس کی وجہ سے جیل کے سارے قیدی بیمار ہو گئے۔ میری طبیعت بہت خراب ہوئی اورمیں نے ان سے ہسپتال لے جانے کا کہا لیکن وہ مجھے ہسپتال نہیں لے گئے۔ جیل میں سب کو ایک سے زیادہ بیماریاں تھی لیکن ڈاکٹر سب کو انٹی ڈپریشن کی گولیاں دیتے تھے۔ بقول گوگی کے نیوکالونیلزم کے دوران ہماری ہرچیز جیل میں بند تھی، چاہے وہ ہمارے ادارے ہوں زبان، ادب ہو یا انسان سب چیزیں۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک رات میں کچھ لکھ رہا تھا تو پولیس والے میری طرف غور سے دیکھ رہا تھا اور کہا کہ میں نے بھی فیصلہ کر لیا تھا کہ جو ہوگا سوہو گااور اب میں ان کے سامنے نبشتہ کروں گا۔ اس دن پولیس والے آئے اور مجھے سے کہا کہ گوگی آج سے آپ آزاد ہو اپنے گھر جاسکتے ہو۔
بقول گوگی مجھے بہت خوشی ہوئی کہ آج سے مجھے اپنا نام مل گیا۔ گھر جانے پر معلوم ہوا کہ مجھے یونیورسٹی سے نکال دیا گیا تب میں نے یونیورسٹی والوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا کہ آپ گورنمنٹ مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور وزیر تعلیم نے آپ کو ان سرگرمیوں کی بنیاد پر یونی ورسٹی سے فارغ کر دیا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔