نظر انداز بلوچستان – ظفر بلوچ

375

نظر انداز بلوچستان

ظفر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان دنیا کے ایک ایسے خطے پر واقع ہے، جہاں دنیا کے تمام معاشی و جغرافیائی راستے آکر ملتے ہیں، طویل ساحلی پٹی رکھنے کی وجہ سے بلوچستان زمانہ قدیم سے اقوام عالم کےلیئے ایک معاشی راہداری کی حیثیت رکھتی آ رہی ہےـ بلوچستان کے گہرے پانیوں تک پہنچنے کے لیئے اسی کی دہائی میں سویت یونین ( موجودہ روس) نے بلوچستان کے برادر اور ہمسایہ ملک افغانستان کی سرزمین پر اپنے قدم جمائے لیکن یورپی سرمایہ دار ممالک کو سوشلسٹ سویت یونین کے قدم افغانستان کی زمین پر گوارا نہیں ہوئے۔ مغربی اقوام جانتے تھے کہ سویت یونین افغانستان کے بے آب و گیابان اور بے ساحل زمین سے دلچسپی نہیں رکھتا ہے، اسے افغانستان کے راستے سے بلوچستان کے ساحل سمندر پر رسائی حاصل کرنا ہے، اسی لیئے انہوں نے سویت یونین کا شیرازہ افغانستان کے اندر مسلم جہادیوں کے ذریعے بکھیر دیا۔ سویت یونین موجودہ روس بکھر کر کئی ریاستوں میں تقسیم ہوگیاـ سوویت یونین کا خواب ہوا میں تحلیل ہوگیا ـ

بلوچستان کئی اعتبار سے دنیا کے نقشے پر ایک نہایت منفرد ملک ہے۔ رقبہ کے لحاظ سے بلوچستان فرانس سے بھی بڑا ملک ہے بلوچستان قدرتی گیس ، کوئلہ، سونے، تانبہ اور دوسری معدنیاتی دولت سے مالامال ہے لیکن اس دولت کے باوجود یہاں کے بلوچ عوام غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزار رہی ہے کیونکہ قابض ملک بلوچستان کی دولت کو سامراجی ملک چین کے ساتھ مل کر دریغ لوٹ رہا ہے۔ بلوچستان کے قدرتی وسائل اور دولت سے صرف دو فیصد بلوچستان کو مل رہا ہے۔ یہ دو فیصد ان پاکستانی کاسہ لیسوں کی جیب میں جارہا ہے، جو کہ پاکستان کے اپنے گماشتے، وزیر اور دیگر سرکاری و سرکاری ٹھیکہ دار ہیں۔

کہتے ہیں کہ ساری دنیا میں چار سو سترہ معدنیات موجود ہیں اور ان تمام میں سے صرف چار کو چھوڑ کر باقی چار سو تیرہ قدرتی وسائل بلوچستان میں موجود ہیں۔ دنیا کے پانچ امیر ترین بڑے ممالک میں بلوچستان ہےـ

ذمینی، اور سمندری وسائل سے مالا مال بلوچستان کے زمین زادگان غربت کی لکیر سے نیچے بدتر زندگی گذارنے پر مجبور ہیں ـ اس کی سب سے بڑی وجہ غیر اقوام کا بلوچستان پر جبری اور ناجائز قبضہ ہےـ

سیندک اور ریکوڈ پروجیکٹ جو کہ اس وقت چین کے ساتھ پاکستان نے کوڑی کے داموں بیچ کر سودی بازی کی ہے، اس وقت سامراجی چین دونوں ہاتھوں سے بلوچستان کی وسائل کو لوٹ کر چین کو دنیا میں سپر پاور بنانے پر لگا ہوا ہےـ

برصغیر کی تقسیم کے بعد برطانیہ کو سب سے بڑا خدشہ یہ لاحق تھا کہ اگر سوشلسٹ روس خطے میں اپنے پنجے مضبوط کر لے گا تو پھر برطانیہ کو اس خطے میں جانے کے بعد بھی ایک چوکیدار ملک کی ضرورت ہوگی، اس لیئے محمد علی جناح سے برٹش ایمپائر نے ساز باز کرنے کے بعد ہندوستان کو تقسیم کرکے ایک غیر فطری ملک پاکستان کی بنیاد رکھ دی تاکہ جانے کے بعد بھی اسے ایک ایسی ریاست کی کمک حاصل ہو جو اس کے لیئے ہر وقت ہر کام میں حاضر ہوـ

پاکستان بننے کے بعد کے برطانیہ کو یہ بھی خدشہ لاحق تھا کہ اگر نو آزاد مملکت بلوچستان روس کا اتحادی بن گیا، تو بحر بلوچ سمیت تمام خلیجی ساحلوں پر مغربی طاقتوں کا قبضہ ختم ہوگا اور روس انہیں اپنی من مانی کرنے سے روکے گاـ

اس تناظر میں ریاست قلات کے وکیل محمد علی جناح کو برطانیہ نے بلوچستان کے پاکستان میں شامل کرنے کی تجویز دی، جس پر آزاد بلوچستان کے دونوں ایوانوں نے مسترد کرکے اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کا اعلان کیا لیکن برطانیہ کو جنگ عظیم دوئم کے بعد کئی ریاستوں کے ہاتھ سے جانے کے بعد بھی برصغیر سمیت وسطی ایشیا میں اپنی طاقت برقرار رکھنا تھا، اس لیئے نوزائیدہ غیر فطری ریاست پاکستان نے برطانوی خواہشتات کی بنیاد پر بلوچستان کے آزادی پر 27 مارچ 1948 میں شب خون ماراـ بد قسمت بلوچستان کو ابھی آزاد ہوئے چند مدت ہی گذرے تھے کہ پھر ایک قابض کے ہاتھوں قبضہ ہوگیاـ

لیکن بلوچ فطری طور ایک آزاد منش قوم ہے، اس لیئے اپنی کھوئی ہوئی آزادی کو دوبارہ پانے کے لیئے پھر سے جدوجہد کرنے لگےـ

گذشتہ ستر سال سے بلوچ قوم قابض پاکستان سے اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں، اس دوران بلوچستان کے باشندوں نے تباہی اور بربادی کے سوا دیکھا ہی کیا ہے۔ پچھلے چار قابض کے خلاف چار جنگوں کے بعد اکیسویں صدی کی ابتدائی سالوں میں بلوچ نے ایک منظم جنگ کی بنیاد رکھی جو کہ گزشتہ بیس سال جاری ہے اس دورانیہ میں بلوچ قوم نے اپنی بقا اور تشخص کی جنگ میں کئ نشیب و فراز دیکھیں۔ لاکھوں بلوچ عوام اپنی ہے وطن میں بے گھر ایک ہمسایہ ملکوں میں پناہ لینے لگے لیکن وہاں تک دشمن پاکستان نے انہیں برداشت نہیں کیا۔ اپنے پروردہ دہشتگردوں کے ذریعے افغانستان بگٹی، مری بلوچ سمیت کئی بلوچ قبیلوں پر حملہ کرکے انہیں نقصان پہنچایاـ اس جنگ آزادی میں ہزاروں بلوچ جبری طور پر پاکستانی فوج، آئ ایس آئ اور ملٹری انٹیلجنس اغوا کرکے عقوبت خانوں انسانیت سوز تشدد کیا ہے۔ پاکستانی خفیہ ٹارچر سیلوں سینکڑوں بلوچوں تشددہ اور مسخ شدہ لاشیں نکال کر جنگلوں اور صحراؤں میں پھینک دیئے گئےـ اس کے علاوہ قابض پاکستان نے اپنی ڈیتھ اسکواڈز کے ذریعے سینکڑوں بلوچ آزادی پسندوں کو قتل کروایاـ

اس وقت بلوچستان ہر شہر، گاؤں، کوچہ اور ہر علاقوں میں پاکستانی دہشتگرد آرمی کی بربریت جاری ہے، مارو اور پھینکو کی پالیسی کے تحت گذشتہ چند سال پہلے مقبوضہ بلوچستان کے شہر توتک میں بلوچ آزادی پسندوں کی اجتماعی قبر بھی دریافت ہوگئی، جنہیں پاکستانی ٹارچر سیل تشدد کرنے کے بعد ان کی لاشوں کو دہشتگرد آرمی نے اجتماعی قبر میں دفنایا تھاـ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے عالمی و علاقائی سمیت ہر سطح پر مظلوم بلوچ عوام ہر پلیٹ فارم پاکستان بربریت کے احتجاج کرتا آ رہا ہے مگر مہذب دنیا کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ـ

بحیثیت بلوچ سیاسی کارکن ہونے کے ناطے دنیا کے تمام انسانی حقوق کے عالمی سمیت تنظیموں سے ایک امید رکھتے ہیں کہ بلوچ کی آواز ضرور سنیں خاص کر برطانیہ کا اخلاقی فرض بنتا ہے کہ وہ بلوچستان تحریک آزادی کو عالمی سطح مدد کریں کیونکہ دنیا میں برطانیہ سے بہتر بلوچستان کے بارے میں کوئی نہیں جان سکتا ـ


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔