میجر ندیم کیساتھ ہلاک ہونے والے کمسن لڑکے کون تھے؟ – حسنین علی لاشاری

930

میجر ندیم کیساتھ ہلاک ہونے والے کمسن لڑکے کون تھے؟

تحریر: حسنین علی لاشاری

دی بلوچستان پوسٹ

گذشتہ دنوں ضلع کیچ کے علاقے تگران میں کلگ کے مقام پر پاکستانی فوج کے ایک قافلے کو بم حملے میں نشانہ بنایا گیا جسکے نتیجے میں فوج کے ایک میجر ندیم عباس بھٹی سمیت چھ اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔ اس حملے میں میجر ندیم اور فوجی اہلکاروں کے علاوہ دو کمسن لڑکے بھی ہلاک ہوگئے تھے، جنکا ذکر نہ تو آئی ایس پی آر نے کیا اور نہ ہی یہ لڑکے کسی اخبار کی شہ سُرخیوں میں آئے ۔ اس حملے کی ذمہ داری آزادی پسند عسکری تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جئیند بلوچ نے قبول کی تھی۔

میجر ندیم عباس، ایک بدکردار شخصیت: بی ایل اے کے حملے میں ہلاک ہونے والے پاکستان فوج کے میجر ندیم عباس کیچ اور اسکے گردنواح میں ایک بدکردارشخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔ میجر ندیم ڈیتھ اسکواڈ کی معاونت و تربیت کے علاوہ منشیات فروشی، اغواء برائے تاوان، بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگیوں، حراستی قتل، گھروں اور دکانوں کو جلانے، کم عمر لڑکوں کا جنسی استحصال سمیت دیگر سماجی برائیوں میں ملوث تھے۔

میجر بھٹی مکران خاص طور پر ایرانی سرحد سے ملحقہ علاقوں میں منشیات فروشوں سے گہرے مراسم قائم کرچکا تھا۔ وہ کروڑوں روپے بھتے کے عیوض منشیات فروشوں کو کھلے عام حرکت کرنے اور منشیات فروخت کرنے کی نا صرف چھوٹ دے چکا تھا بلکہ وہ انہیں بلوچ آزادی پسندوں سے تحفظ بھی فراہم کرنے کی یقین دہانی کرتا تھا۔ یاد رہے اس وقت بلوچستان کے مذکورہ علاقوں سے دنیا بھر کیلئے منشیات کی ترسیل ہوتی ہے۔

میجر بھٹی، بلوچ قبائل و گروہوں کو مذکورہ علاقوں میں آپس میں لڑانے، انہیں ایک دوسرے کے خلاف مسلح کرنے، پھر ان کو حکومتی حمایت دینے کے بدلے ان سے بلوچ آزادی پسندوں کے خلاف حملے کرنے جیسے اعمال پر مجبور کرنے پر پورے علاقے میں بدنام تھا۔

وہ براہ راست، کئی نوجوانوں کو گرفتار کرکے لاپتہ کرانے، عام بلوچ بستیوں پر فوجی آپریشن کرنے، غریبوں کے گھر و کاروبار جلاکر خاکستر کرنے جیسے جرائم میں ملوث تھا۔ وہ ایک باقاعدہ جنگی مجرم تھا۔

فوجی کانوائے میں ہلاک ہونے والے کمسن لڑکے: فوجی کانوائے پر ہونے والے بم دھماکے میں میجر ندیم عباس بھٹی اور چھ فوجیوں کے علاوہ ہلاک ہونے والوں میں دو کم عمر لڑکے بھی شامل تھے، جنکی شناخت حارث اور بلال کے ناموں سے ہوئی ہے جو کہ کیچ کے علاقے تگران کے رہائشی بتائے جاتے ہیں۔ پاکستان فوج نے ایسے سینکڑوں کم عمر لڑکوں کو بلیک میلنگ، ، لالچ و مراعات کے عوض جاسوسی نیٹورک اور مسلح کرکے ڈیتھ اسکواڈوں کا حصہ بنایا ہے۔

پاکستانی فوج اقوام متحدہ کے مسلمہ قوانین کو پامال کرتے ہوئے بلوچستان میں جاری آزادی کی جدوجہد کیخلاف کمسن بلوچ نوجوانوں کو زور زبردستی بھرتی کرکے جاسوسی نیٹورک اور ڈیتھ اسکواڈ کا حصہ بناکر اُنہیں “مسلح تنازعے” میں دھکیل کر اُنکی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔

گذشتہ دنوں پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی علی وزیر نے ایک پاکستانی فوجی کی تصویر ٹویٹ کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ “‏کم عمر بچوں کو ایف سی میں بھرتی کیا جا رہا ہے اور ان کو بلوچستان کے ان علاقوں میں بھیجا جاتا ہے جہاں باقاعدہ جنگ ہو رہی ہے، کل ہی کورائی ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک ایف سی والے نے خود کشی کی ہے جس کی ڈیوٹی بلوچستان میں تھی۔”

بلوچستان میں تعینات ایف سی اہلکاروں کی اکثریت خیبر پشتونخواء سے ہے جن میں کم عمر نوجوانوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو بلوچستان میں قتل و غارت میں ملوث ہیں اور اکثر آزادی پسند بلوچ مسلح تنظیموں کے حملوں میں مارے بھی جاتے ہیں۔

گوکہ بلوچ آزادی پسند جماعت اور پشتون تحفظ موومنٹ دونوں مختلف مواقع پر پشتون قوم سے یہ اپیل کرتے رہے ہیں کہ وہ ایف سی کا حصہ بن کر بلوچستان میں جاری آپریشنوں میں شریک نا ہوں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔