ملا عمر کے بیٹے ملا یعقوب طالبان کے فوجی کمیشن کے سربراہ مقرر

286

افغان طالبان کے اعلیٰ عہدیداروں نے تصدیق کی ہے کہ طالبان تحریک کے بانی ملا محمد عمر کے بڑے بیٹے ملا یعقوب کو تحریک کے فوجی کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ کئی کا خیال ہے کہ یہ نامزدگی شاید مستقبل میں ان کی اہم ذمہ داری کے لیے راہ ہموار کر سکتی ہے۔

ملا یعقوب اس وقت طالبان کے نائب سربراہ بھی ہیں۔ ان کو جاننے اور قریب سے دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اس کی عمر تقریبا 27 سال ہے اور اس نے ابتدائی دینی تعلیم پاکستان کے مدارس میں حاصل کی ہے۔ ملا یعقوب کی جوان ہونے کی وجہ سے یہ خیال کیا جارہا ہے کہ شاید ان کا سیاسی اور جنگی امور میں تجربہ اتنا زیادہ نہیں لیکن ملا محمد عمر کے بیٹے ہونے کے ناطے طالبان کے فوجی کمانڈروں اور سیاسی رہنما ان کی اطاعت کریں گے۔

طالبان حکومت میں وزیر خزانہ ملا آغا جان معتصم کا، جو کہ ملا عمر کے خاندان کے قریب سمجھے جاتے ہیں، کہنا ہے کہ یعقوب ایک دینی عالم ہے اور گذشتہ 19 سالوں میں وقتا فوقتا امریکی اور نیٹو افواج کے خلاف جنگی محاذوں پر کارروائیوں میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ آغا جان کا مزید کہنا ہے کہ ملا یعقوب اس لیے بھی جنگی تجربہ رکھتے ہیں کہ ان کے والد ایک فوجی شخصیت تھے اور یعقوب نے والد سے بھی بہت کچھ سیکھا ہے۔

ملا یعقوب کی نئی ذمہ داری نے کئی سوالات کو جنم دیا کہ اس تقرری کی کیا ضرورت تھی جبکہ توجہ سیاسی عمل پر ہے۔ انیس سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے طالبان کا امریکہ سے معاہدہ ہوچکا ہے، غیر ملکی افواج کے ساتھ جنگ بندی برقرار ہے اور بین الافغانی مذاکرات شروع کرانے کے لیے قیدیوں کی رہائی کا سلسلہ جاری ہے۔

طالبان نے پیر کو بھی افغان حکومت کے 53 قیدیوں کو رہا کر دیا ہے۔ اب تک طالبان نے تقریباً 250 حکومتی قیدی جبکہ افغان حکومت نے 1000 طالبان قیدی رہا کیئے ہیں۔ ایک اہم فیصلہ یہ بھی ہوا ہے کہ ملا یعقوب کی تقرری سے طالبان کے فوجی کمیشن کے دو یعنی جنوبی اور مشرقی ذونز کو ایک کردیا گیا ہے۔

طالبان کے ایک اعلی عہدیدار کا کہنا ہے کہ طالبان کے سابق سربراہ ملا اختر منصور کے وقت فوجی کمیشن ایک تھا لیکن سکیورٹی مشکلات، فوجی کمانڈروں کے اجلاسوں، رابطوں اور کارروائیوں کے لیے اجازت میں مشکلات کی وجہ سے کمیشن کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا لیکن اب دونوں حصوں کو ملا یعقوب کی سربراہی میں ایک بار بھر یکجا کیا گیا ہے۔

ملا یعقوب کو طالبان کے اہم فوجی ذمہ داروں پر فوقیت دی گئی ہے کیونکہ ملا عمر کی وجہ سے شاید فوجی کمانڈرز اور سیاسی رہنما ان کی بات کو زیادہ اہمیت دیں۔ فوجی کمیشن کے سابق سربراہ ملا عبدالقیوم ذاکر اور جنوبی صوبوں کے فوجی امور کے انچارج صدر ابراہیم جیسے سینیئر عہدیدار ملا یعقوب کے معاونین مقرر کیئے گئے ہیں اور اب ان کے ماتحت ہوں گے۔

ملا ذاکر فوجی امور کے بہترین ماہرین میں سے ایک ہیں لیکن ان کے ملا عمر کے بعد کئی مواقع پر قیادت سے اختلافات بھی رہے ہیں اور اختر منصور نے اس کو ہٹایا بھی تھا۔

طالبان اور کئی سابق طالبان رہنماؤں سے ملا یعقوب کی تقرری سے متعلق گفتگو کے دوارن معلوم ہوا کہ ان کی تقرری کا مقصد شاید قطر میں سیاسی دفتر کے عہدیداروں بلخصوص ملا عبدالغنی برادر کو کسی حد تک کنٹرول یا ان کی جانب سے خود اہم فیصلے کرنے سے روکنا ہے۔

طالبان کے ایک اہم عہدیدار کا کہنا ہے کہ رہبری شوری نے ملا برادر کے اس فیصلے پر سخت تنقید کی تھی جب انہوں نے امریکی مذاکرات کاروں سے غیر ملکی افواج کو 14 مہنیوں میں نکلنے پر اتفاق کیا تھا کیونکہ شوری چھ سے نو ماہ میں انخلا کی پیشکش کرچکی تھی۔ شوری نے ملا برادر اور ان طالبان مذاکرات کاروں کی مذمت کی تھی جب انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکہ کے دورے کی دعوت قبول کی تھی۔ شوری نے سیاسی نمائندوں کو امریکہ جانے سے منع کیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے خود بھی طالبان کو کیمپ ڈیوڈ میں ملاقات کی دعوت کی تصدیق کی تھی تاہم ستمبر میں کابل میں طالبان خودکش حملے میں ایک امریکی فوجی کی ہلاکت کی وجہ سے اچانک دورہ روک لیا گیا تھا۔

ایک سابق طالبان عہدیدار کا موقف ہے کہ ملا یعقوب کی تقرری شاید ان فوجی کمانڈروں کے لیے بھی ایک پیغام ہو جن کو امریکہ سے امن معاہدے میں غیرملکی شدت پسندوں کے خلاف ممکنہ اقدامات کے وعدوں پر تحفظات ہیں۔ ملا یعقوب کی تقرری میں طالبان کے امیر شیخ ہیبت اللہ کے پاس دلائل کوئی بھی ہوں لیکن طالبان کے اکثریت کا خیال ہے کہ ملا عمر کے ناطے طالبان تحریک میں ملا یعقوب اب ایک طاقتور شخصیت کی حیثیت سے سامنے آگئے ہیں۔