21 مئی 2018 کو مچھ بولان سے پاکستانی سیکورٹی فورسز و خفیہ اداروں کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والے بلوچ نوجوان عبدالحئی کرد 2 سال گزرنے کے باوجود بازیاب نہیں ہوسکا۔
بولان کے رہائشی نوجوان عبدالحئی کرد کو دو سال قبل بولان کے علاقے مچھ میں کوہ باش ہوٹل کے قریب سے گرفتاری بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا تھا۔
عبدالحئی کرد کی ہمشیرہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ دو سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود میرے بھائی کا کوئی پتا نہیں چل سکا نہ ہی اسے کسی عدالت میں پیش کرکے اس کو قانونی حقوق دیئے گئے ہے۔
ان کا مزید کہنا ہے کے عالمی انسانی حقوق کے ادارے، بلوچ سیاسی جماعتیں و سپریم کورٹ آف پاکستان سے میں اپیل کرتی ہوں کے وہ میرے بھائی کے بازیابی میں ہماری آواز بنیں اور میرے بے گناہ بھائی کو منظرے عام پر لاکر فری ٹرائل کا موقع دیا جاسکے۔
انہوں نے کہا کے ہم نے عبدالحئی کرد کی باحفاظت بازیابی کے لئے کوئٹہ سمیت مختلف پریس کلبوں کے سامنے اپنا فریاد لیئے آواز اٹھاتے رہے لیکن یہاں کوئی ہماری آواز بننے کو تیار نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر عبدالحئی نے کوئی گناہ کیا ہے تو پاکستان اسے اپنے عدالتوں میں لاکر اسے اس کی بے گناہی ثابت کرنے کا موقع فراہم کرے۔
خیال رہے عبدالحئی کرد کے جبری گمشدگی کے حوالے سے ان کے لواحقین اور بلوچ سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک کمپئین #SaveAbdulHaiKurd کے ہیش ٹیگ کیساتھ چلائی جارہی ہے۔