قومی قوت | “تشکیل، روک اور دستور” – برزکوہی

626

قومی قوت | “تشکیل، روک اور دستور”

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

کسی قوم کے قدرتی وسائل، معاشی استحکام، عسکری ذرائع ضرور اسکے طاقت و ترقی میں کردار ادا کرتے ہیں لیکن قومی قوت کا حقیقی دارومدار اس قوم کے افراد پر ہوتا ہے۔ قومی قوت زمین سے نہیں قوم سے تشکیل پاتی ہے، قومی قوت کا حصول اس بات پر منحصر ہے کہ اسکے بابت افراد کے رویئے کیا ہیں، انکے اقدار کیا ہیں۔

میں پہلے بھی تذکرہ کرچکا ہوں کہ طویل ماضی کو چھوڑ کر محض دو دہائی قبل دیکھا جائے، جب موجودہ تحریکِ آزادی کا آغاز نہیں ہوا تھا، تب بھی اس دھرتی پر بلوچ آباد تھے، بلوچستان بھی تھا، بلوچ قومی زبان، ثقافت، روایات، ثقافت سب کا وجود تھا، مگر پھر بھی عالمی و علاقائی سطح پر بلوچ کی شناخت کس حد تک تھی؟ اور بلوچ کی مسلمہ وجود کو کس حد تک تسلیم کیا گیا تھا؟

اس حد تک شاید لوگ شناسہ تھے کہ بلوچستان قدرتی وسائل و ساحل کے دولت سے مالا مال، اہمیت و افادیت رکھنے والا ایک اہم خطہ ہے، اور اس کے وارث و باسی بلوچ قوم غلامی، لاچاری، محکومی اور بے بسی کی زندگی گذارکر پینے کے صاف پانی اور دو وقت کی روٹی کا محتاج ہیں اور ساتھ ساتھ پاکستان کی ظلم و زیاتی و نا انصافی کی چکی میں پِس رہے ہیں۔ اب بھی یہی تاثر و حقیقت بلوچ قوم کے بارے میں ضرور موجود ہے، مگر آج یہ بھی پہچان پوری دنیا کے سامنے عیاں ہے کہ بلوچ قوم محض محکوم نہیں، یہ ایک زندہ قوم ہے، یہ قوم اپنی زندگی و بقاء، قومی شناخت و پہچان اور سرزمین کی خاطر جان کی بازی لگا کر لڑ بھی رہا ہے۔ اس قوم میں مزاحمت ہے، اس قوم کا ایک وجود ہے، اس قوم کے سرزمین کے بارے میں جو بھی فیصلہ ہوگا، اس میں بلوچ قوم کو نظر انداز کرنا ناممکن ہے۔

تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ جو جو قومیں اپنی قومی بقاء و دفاع اور تاریخ کےلیئے لڑے ہیں، وہ تاریخ میں امر ہوئے ہیں، وہی قومیں آج زندہ ہیں، وہی اقوام آج دیگر اقوام کی نظروں میں بحثیت ایک خود دار قوم کے پہچان رکھتے ہیں۔ ہمیں تاریخ یہ اشارہ دے رہی ہے کہ بلوچ قوم کے پاس ایک منظم و موثر جنگ کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ بلوچ آج بقاء و فنا کی سیما کی آخری لکیر پر کھڑا ہے، جہاں سے یا تو بقاء کا سفر شروع ہوگا یا پھر قومی فناء کی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

قومی بقاء، قومی جنگ و قومی قوت میں مضمر ہے، قومی فناء قومی بے حسی، بیگانگی و خاموشی سے جنم لیتا ہے۔ قومی جنگ کی شدت و موثر انداز میں گامزنی خود قومی قوت کی تشکیل ہوتا ہے اور وہی قومی قوت بقاء کی راہیں فراہم کرتا ہے۔ جس قوت کی تشکیل و پرورش میں قومی لہو و قومی پسینہ، دکھ و درد، کرب، تکلیف، مشکلات اور چیلنجز ہر لمحہ و ہر موڑ پر موجود ہوں، پھر وہ قوت مضبوط و مستحکم ہوکر ہمیشہ قائم و دائم رہیگا۔ قومی غلامی و محکومی کے سفر میں قومی جنگ کے بغیر قومی قوت کی بنیاد و تشکیل ممکن نہیں، اگر ممکن ہو بھی پھر وہ عارضی و وقتی اور غیر فطری ہوگا، یہ سمجھا جائے کہ فطری و حقیقی قوت پلیٹ میں تیار نہیں ملتی ہے، اگر مل جائے، پھر وہ حقیقی و فطری قوت نہیں ہوتا۔

قومی جنگ خود سمندر کی طرح اپنی لہروں میں تمام قومی و سماجی امراض و کچروں کو نکال باہر پھینکتا ہے، جو قومی قوت کی تشکیل میں رکاوٹ ہوتے ہیں مثلاً تنگ نظری، ضد، انا، ہٹ دھرمی، بغض و حسد، عدم برداشت، بدنیتی، آزاد خیالی، جنگی منافع خوری وغیرہ۔ ایسے رویے ایک باشعور و با علم اور بہادر انسان کی خصلتیں نہیں ہوسکتیں۔ مگر کسی قومی قوت کی تشکیل میں رکاوٹ بھی یہی ہوتی ہیں۔ شاید مجموعی و قومی حوالے سے ہمارے علم و شعور کی سطح اس حد تک نہیں جہاں ہمیں یہ رویے اور چیزیں سطحی و فضول نظر آئیں، جن سے ہم جلد گردن خلاصی کریں۔ قومی جنگ اور قومی جنگ کی شدت و منظم اور موثر انداز خود ان تمام امراض و منفی رویوں کو قومی جسم سے جڑ سے کاٹ کر صاف کردے۔ یہاں سے قومی قوت کی بنیاد شروع ہوکر تشکیل کی طرف سفر شروع ہوگا۔

بحیثیت بلوچ، بحیثیت جہدکار، بحیثیت سیاسی کارکن، بحیثیت ذمہ دار گو ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والا بلوچ، اپنی تنظیمی، سیاسی، ذاتی، علاقائی، خاندانی، سطحی، جذباتی اختلافات، غصہ، ناراضگی، ضد، نفرت، انتقام، عدم برداشت، سب کو اپنے ساتھ بے شک رکھ لے مگر جو بھی جہاں بھی دشمن کے خلاف لڑرہا ہے اور دشمن پر حملہ کررہا ہے، کم از کم قومی جنگ اور کسی بھی تنظیم کی کاروائیوں اور آپریشنوں کی خوامخواہ مخالفت اور پاکستانی فوج کا ترجمان بن کر ان کی مخالفت نہیں کرنا چاہیئے۔ یہ کام تو پاکستانی فوج و آئی ایس آئی اور اس کے ایجنٹوں کی باقاعدہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ جب بھی بلوچ سرمچار حملہ کرتے ہیں ان کو پہلے جھوٹ قرار دیتا ہے، اگر نہیں تو ان کی مخالفت کرتا ہے۔ دنیا کے سامنے، بلوچ قوم کے سامنے، بلوچ بہادر سپوتوں کو پروکسی، دہشتگرد، کرائے کے قاتل، کسی ملک و قوت کا ایجنٹ ظاہر کرنے کی جتن کرتا ہے تاکہ مہذب دنیا خاص طور پر بلوچ قوم کے دلوں و ذہنوں میں بھی اپنے قومی نجات دہندہ اور قومی مسیحاوں کے بارے میں ایک غلط تصور پیدا ہو۔

اس ایجنڈے و مشن پر آج سے نہیں بلکہ شروع سے باقاعدہ طور پر پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی منظم انداز میں کام کرتے آرہے ہیں، مگر اب سوشل میڈیا کے بدولت مزید اس میں تیزی لایا جارہا ہے تاکہ بلوچ سرمچاروں کی قومی جنگ اور دشمن کی خلاف قومی آپریشنوں اور کاروائیوں کو مہذب دنیا اور بلوچ قوم کے سامنے غلط پیش کرکے مشکوک کیا جائے۔

بدبختی، بد نیتی، کم علمی، بے شعوری، اناپرستی، ذاتی ضد و نفرت کہیئے یا جو بھی کہیں اگر پاکستانی فوج، آئی ایس آئی اور اس کے ایجنٹوں کے ساتھ ساتھ خود بلوچ اگر تنظیموں اور سرمچاروں کی کاروائیوں کو انڈیا و ایران کا پروکسی اور ایجنڈہ کہہ دیں پھر کیا فرق باقی بچے گا؟

حالانکہ یہ بات واضح ہے کہ اس قومی جنگ میں باشعور و باعلم بلوچ شامل ہیں، کوئی اتنا احمق و بے وقوف نہیں ہے کہ وہ خود کی جان کو اور پورے خاندان کو داو پر لگا کر انڈیا، افغانستان اور ایران کی خاطر کام کریگا۔ یہ ایک باضمیر، باشعور اور خود دار انسان اور بلوچ کے شان و شوکت کے خلاف ہے اور جہاں تک سپورٹ و مدد کی ضرورت ہے تو اپنی قومی بقاء و قومی نجات کی خاطر ہر ایک سے مدد مانگنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن کسی کے لیے کام کرنا اور کسی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانا، کسی کا پراکسی بننا خود اپنی قوم، اپنی سرزمین اور اپنے شہداء کے ساتھ غداری ہے۔

آج تمام بلوچ جہدکار شعوری بنیادوں پر اسی فلسفے پر کاربند ہوکر دشمن کے خلاف لڑرہے ہیں، بلوچ سرمچار چاہے کسی بھی گروپ و تنظیم سے ہوں، ان کی محنت و قربانی، بہادری و جرت، ایمانداری اور مخلصی کو مدنظر رکھ کر دشمن کے خلاف ہر کاروائی اور آپریشن کی بھرپور حوصلہ افزائی کرنا چاہیئے نا کہ پاکستانی فوج اور اس کے ایجنٹوں کے پروپگنڈوں کی نشرواشاعت کرکے دانستہ و غیر دانستہ طور پر پاکستان کے کاونٹر بلوچ پروپگنڈے کو آگے بڑھانا چاہیئے۔

میرے خیال میں ایک بات اب بالکل واضح اور صاف ہے کہ جنگ اور جنگی کاروائیوں کی مخالفت، انہیں متنازع یا مشکوک بنانا یا تو خود جنگ سے تھکاوٹ و راہ فراریت کے لیئے راہموار کرنے کی کوشش ہے یا پھر براہ راست دشمن کی بلوچ مزاحمت، مخالف ایجنڈے پر کام کرنے کا باقاعدہ پروگرام ہے، ان دونوں صورتوں کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ اور یہ دونوں صورتیں قومی قوت کی تشکیل میں نیک شگون نہیں۔

قومی قوت کی تشکیل محض قوم کے بیرونی دشمنوں کیلئے خطرہ نہیں ہوتا بلکہ یہ انکیلئے بھی خطرے کی گھنٹی ہوتی ہے، جو قوم کی کمزور حالت سے ذاتی و گروہی فوائد بٹور رہے ہوتے ہیں۔ اسی لیئے ایک حقیقی قومی قوت کی تشکیل میں ہر طرح کی اندرونی و بیرونی رکاوٹیں سامنے آتی ہیں، لیکن عمل، حرکت، سچائی اور قربانی نا صرف بیرونی دشمن کے شکست پر منتج ہوتی ہے بلکہ قومی قوت کو کمزور کرنے والا کا بھی چہرہ وقت کے دھندلے آئینے میں زیادہ صاف کرکے دکھانا شروع کردیتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔