بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 3964 دن مکمل ہوگئے۔ ایجوکیشنل الائنس کے چیئرمین زبیر شاہ آغا اور ان کے ساتھیوں نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے رہنما ماما قدیر بلوچ نے اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہر سال کے عیدوں کی طرح اس عید پر بھی احتجاجی بھوک ہڑتالی کیمپ صبح 11 بجے سے شام 4 بجے تک کھلا رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ عید ہی وہ دن ہے جس کے آنے سے گھر میں چھوٹے بچوں سے لیکر بڑے سب خوش ہوتے ہین، غریب کیلئے عید نئے کپڑے، جوتے اور خوشیاں لیکر آتا ہے۔ عید اس وقت اس گھر میں منائی جاسکتی ہے جہاں حالات معمول کے مطابق اور گھر میں خوشیاں ہوں جس گھر میں ماتم یا سوگ کا عالم ہو اس گھر میں کوئی سنگ دل انسان ہی عید مناسکتا ہے۔
ماما قدیر نے کہا کہ اگر ہم بغور بلوچ قوم پر ہونے والے ظلم اور جبر کا جائزہ لیں تو پوری بلوچ قوم سوگ میں ہیں۔ بلوچستان میں طویل عرصے سے فوجی آپریشن، روز مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کی وجہ سے بلوچ گھروں میں سوگ کا سماں،، ہر آنکھ اشک بار ہے اور بلوچستان جھل رہا ہے، ہر طرف آنسووں کے دریا بہہ رہے ہیں۔ اس مرتبہ بھی دنیا کے مسلمان عید کی خوشیاں منانے کی تیاری میں مصروف ہیں مگر بلوچ اپنے پیاروں کی گولیوں سے چھلنی لاشیں وصول کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جس دیس میں آبادیوں پر گولیاں برسائی جائیں، نوجوان اذیت خانوں میں ہوں، قوم کی باعزت خواتین عقوبت خانوں میں انسانی روپ میں درندوں کے ریپ کا سامنا کررہی ہوں، مائیں اپنے لخت جگروں کی غم سے نڈھال ہوں، بہنیں پریس کلبوں کے سامنے اپنے بھائیوں کی بازیابی کی خاطر سالوں سے احتجاج کررہی ہوں، معصوم بچوں کو گولیوں سے بھون دیا جاتا رہا ہو، خوشیوں کے بدلے سروں کی کٹائی ہوتے ہوئے نئے دن کی شروعات تشدد زدہ لاشوں سے کی جائیں تو عید کی خوشیاں اس دیس سے بہت دور چلی جاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ احساس جنم لیتا ہے کہ آپ کی چھت کا چھین جانے کا خوف ہوں، آپ تحفظ اور سلامتی کے خطرات میں محسوس کررہے ہوں تو عید کی خوشیاں کیسے منائیں۔