عارف وزیر کا قاتل کون؟ – رضوان عبدالرحمان عبداللہ

532

عارف وزیر کا قاتل کون؟

تحریر: رضوان عبدالرحمان عبداللہ

دی بلوچستان پوسٹ

38 سالہ پختون رہنما عارف وزیر کے قتل کا معاملہ ابھی نہیں تو کچھ دنوں بعد یقیناً خوش اسلوبی سے ’’کھوہ کھاتے‘‘ ڈل جائے گا۔ ایسا ہرگز نہیں کہ قاتلوں کا کھوج لگانا مشکل کام ہے بس غم، دکھ، اور شرمندگی صرف اس کی پہچان کا سامنا کرنے میں آڑے آتی ہیں۔ وجہ یہ ہے قتل کا کھرا اس دہلیز کی طرف لے کر جاتا ہے جنہیں ’’ماں‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ہر شخص کی طرح عارف کی پروش کی ذمہ داری بھی دو ماؤں پر تھی، ایک ماں وہ جس کی کوکھ سے عارف کا جنم ہوا، جبکہ بڑی ماں کہلانی والی دوسری ماں، جس نے عارف کو بطور شہری اپنے آغوش میں لیا۔ جنم دینے والی ماں کی معصومیت کہیں یا نا ادیشی کہ وہ اولاد کے معاملے میں ریاستی ماں کے دخل اندازیوں کو من و عن تسلیم کرتیں اور شاید یہی وہ دانستہ یا نادانستہ غلطی ہو سکتی ہے جو عارف کی جان لینے کی باعث بنی ہے۔

ہوا کچھ یوں کہ ہر اولاد کی طرح عارف وزیر بھی ماں کا راج دلارا تھا، اتنا دلارا کہ وہ تو اپنے سپوت کو آنکھوں سے آوجھل کرنے پر بھی تیار نا ہوتی تھی، یہ تو بڑی ماں آڑے آگئیں، بولی بہن فکر کیوں کرتی ہے، آرٹیکل 8 کے تحت وہ صرف عارف کی دوسری ماں ہی نہیں بلکہ اس کے بنیادی آئینی تحفظ کی پہراہ دار بھی ہیں۔ سیاسی کارکن کی اس بھولی ماں کے لئے فقط یہ ضمانت بھی کافی تھی، بڑی ماں نے تو پھر جب آرٹیکل 9 کے تحت اپنے ہی سر کی قسم کھا کرعارف کی حقِ زندگی کا ذمہ آٹھایا، تو پھر شک کی گنجائش کہاں بچتی؟ بڑی ماں نے آرٹیکل 10 کے بابت یہ یقین دہانی بھی کروائی کہ اگر باہر نکلنے پر ان کے بیٹے پر کسی ایسی ویسی حرکت کرنے کا الزام لگا تو، وہ خود دفاع کا حق دلائیں گیں۔ اتنی ضمانتوں کے بعد اب بھی اعتماد نا ہوتا؟ بڑی ماں نے تو ایک اور قسم کھا لی آرٹیکل 11 کے تحت تو عارف کو غلام بنانے کی سوچنے والوں کی بھی خیر نہیں۔ چھوٹی ماں جو اولاد کے معاملے پر ایسی ہمنوا ملنے پر یقیناً نازاں تھیں، بڑی بی کی ایک اور پتے کی بات بتائی پر مسکرا اٹھیں، بڑی بی نے بتایا چونکہ فضا میں سانس لینا ابھی تک قابل جرم نہیں تو، آرٹیکل 12 کے تحت کوئی مائی کا لال ان کے بیٹے کو مجرم بھی نہیں بنا سکتا۔

اعتماد کا سنگین کھیل دو ماوں کے درمیان جارہی تھا کہ ایک دن عارف وزیر کی رات جیل میں بسر ہوئی، سلسلہ تھمنے کا نام نا لیا تو سگی ماں کا بڑا جی للچایا کہ وہ بڑی ماں سے بوچھیں کہ بہن تم تو کہا کرتی تھیں کہ آرٹیکل 13 کے تحت ہمارے بیٹے پر ایک ہی جرم کی بار بار سزا دینے کی ممانعت ہے؟ لیکن کیا کرتیں بڑی بی پر ان کا عقیدہ لوہے کی طرح مظبوط تھا، وہ تو خود کے گھر کی تباہ حال دیواروں کی بابت بھی نا پوچھ سکیں، جس کی پہرے دار بڑی بی کہتی تھیں کہ وہ آرٹیکل 14 کے تحت ان کی حفاظت سے نہیں چوکیں۔ عارف جیل سے چھوٹا تو اسے اپنے نقل وحمل میں دقت ہونے لگی، ماں سے شکوہ کرتا تو ڈپٹ کر کہتیں ایسا کیسے ہو سکتا ہے، بڑی بی تو آرٹیکل 15 کے تحت بذات خود تجھے نقل و حرکت کرنے اور ملک کے کسی حصے میں آباد کرنے کی خواہاں ہیں۔ جنم دینے والی ماں کا اعتماد مزید بڑھتا کہ اچانک اسے عارف کی سیاسی سرگرمیوں میں کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا، بھاگتی ہوئی ریاستی ماں کے پاس پہنچیں، جواب آیا ارے اس کی اجازت تو آرٹیکل 16 کے تحت میں نے خود دی ہے، فکر مت کر۔ مزید یہ بھی بتایا کہ وہ تو آرٹیکل 17 کے تحت اس کے بیٹے کو سیاسی میدان چنتے دیکھنے کی بھی تمنا رکھتی ہیں۔ ماں جو کہ بڑی بی کی باتوں پر پہلی ہی کامل ایمان لا چکی تھی، مزید گرویدہ تب ہو گئیں جب بڑی بی نے مطلع کیا اس نے تو آرٹیکل 18 کے تحت عارف کو کوئی بھی پیشہ یا مشغلہ اختیار کرنے، تجارت یا کاروبار کرنے کی بھی چھوٹ دے رکھی ہے۔

آئے روز ایک ماں کی دوسرے ماں سے پالی گئی خوش فہمیاں، عارف وزیر کی مشکلات کے ساتھ بڑھ رہی تھیں۔ بیٹا خاموش رہنے لگا تو بڑی ماں آرٹیکل 19 کے تحت اظہار خیال کرنے پر اکساتیں۔ زیادہ بولنے لگا تو بڑی ماں اس لئے نازاں ہوتیں کہ برخوردار آرٹیکل 20 کے تحت تبلیغ اور ادارے قائم کرنے والے حق سے پوری طرح آگاہ ہے۔ عارف اقلیتوں سے ہمدری جتاتا تو بڑی ماں آرٹیکل 21،22 سے اس کی ایسی آشنائی پر کھل کر داد دیتیں۔ عارف کو جائیداد کی ملکیت پر مشکلات آئیں تو بڑی ماں آرٹیکل 23 کی صورت میں تسلی دلواتیں کہ وہ اسے جائیداد حاصل کرنے، قبضہ میں رکھنے اور فروخت کرنے کے عمل میں مکمل ساتھ دیں گی۔ جائیداد غرق کرنے کی دھمکی پر بڑی ماں سینہ تان کر دعویٰ کرتیں کہ آرٹیکل 24 کے تحت کوئی ہاتھ تو لگا کر دیکھے۔

اعتماد کا یہ خونی کھیل جارہی و ساری تھا کہ ایک دن چھوٹی ماں کی چھٹی حس نے انہیں عارف کے تحفظ کا خطرہ دلایا، بڑی ماں غرا کر بولیں آرٹیکل 25 کے اس کی قانونی تحفظ۔ کی ذمہ داری لے چکی ہیں، تو پھر شبہات کیوں؟ آرٹیکل 26 کو بیچ میں لا کر ایک اور وعدہ کر ڈالا کہ عارف کو کسی بھی جگہ محض نسل، رنگ، ذات، سکونت، کی بنا پرامیتازی رویے کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ آرٹیکل 27 میں بڑی ماں نے پچھلا دعویٰ مختلف لہجے میں دہرا کر یقین دہانی پر یقین دہانی کروائی۔ بڑی ماں کے زچ ہو جانے کہ ڈر سے عارف کی ماں خود کو تسلی دیتیں کہ آرٹیکل 28 کے تحت عارف کا اپنی زبان، ثقافت، اور رسم الخط کی ترویج کرنے میں بھی کوئی خطرہ نہیں۔

اب رکیے۔۔۔ یہ آپ کے اپنے اوپر منحصر ہے کہ آپ (آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 8 سے 28 تک بنیادی حقوق کی) ضامن بڑی ماں کو اس کے جھوٹے دلاسوں، غلط بیانیوں یا کوتاہیوں کی وجہ سے عارف کے قتل کا ذمہ دار گردانتے ہیں یا اس سگی ماں کو جس کے پاس سر خم تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔