ظلم کی آخری حد، کیا اب بھی باقی ہے؟ – احمد علی کورار

120

ظلم کی آخری حد، کیا اب بھی باقی ہے؟

تحریر: احمد علی کورار

دی بلوچستان پوسٹ

چند دن پہلے افغانستان کے درالحکومت کابل میں ایک ہسپتال میں دل سوز اور جاں فرسا واقعہ پیش آیا۔ سب کچھ معمول کے مطابق ہو رہا تھا اور کامیاب ڈیلیوریز کے بعد بہت سے بچے اس دنیا میں آنکھ کھول رہے تھے۔ اچانک نا معلوم حملہ آوروں نے ہسپتال پر فائرنگ شروع کردی نومولود بچے، بہت سی مائیں اور ہسپتال کی نرسیں اس حملے میں ہلاک ہوئیں۔ اس واقعے نے ہر ذی شعور کو ہلا کر رکھا دیا۔

تاسف یہ ہے کہ یہ واقعہ میڈیا کی توجہ کا مرکز و محور نہ رہا، ما سواۓ چند ایک اخبارات اور نیوز چینلز کے۔ شاید میڈیا نے اس واقعے کو معمول کا واقعہ سمجھ کر توجہ نہ دی۔

لیکن اس واقعے نے ہر ذی شعور کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ظلم اس حد تک جا سکتا ہے۔ بربریت یہ روپ بھی دھار سکتی ہے۔ انسانوں کے روپ میں بھیڑیے۔ انہیں بھیڑیئے کہنا ٹھیک رہے گا، ان کے لیے ایسی صفت بھیڑے کی بھی توہین ہے ،کیا الفاظ استعمال کر سکتے ہیں کیا لغت میں ان کے لیے ایسا کوئی لفظ ہے؟

یہ کون سی مخلوق ہے، کس ایجنڈے پہ کام کر رہی ہے، کیا سوچ کر ایسا کر رہی ہے۔ یہ بات دور از دانست ہے۔ بس انہیں عرف عام میں ہم دہشتگرد کہہ کر چپ سادھ لیتے ہیں۔

اس دہشت و بربریت سے نومولود بھی نہیں بچ سکتے۔ بچ جانے والے نومولود بچے عمر بھر ماٶں کی شفقت سے محروم کر دیے گئے۔ مائیں کچھ دیر پہلے جن کے چہروں پر طمانیت تھی۔ خوشی دیدنی تھی، ان کے وہم گماں میں بھی نہ تھا کہ وہ اپنے نونہالوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر جانے والی ہیں، اس اندوہناک واقعے نے نومولو معصوموں کو ماٶں سے جدا کر دیا۔

شاید کرونا سے خائف اس دنیا نے اس دہشت ناک واقعے کو دانست میں نہیں لایا۔ لیکن اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا یہ واقعہ دہشت و وحشت کی انتہا تھی اس سے بڑھ کر کیا ظلم ہو سکتا ہے۔ نوزائیدہ بچے کی طرف بندوق کا رخ کرتے وقت ان کے ہاتھ نہیں کانپے۔

کبھی اے پی ایس میں معصوم بچے اندھا دھند فائرنگ سے ماٶں کو پکارتے، ان کی نگاہوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اوجھل ہو جاتے ہیں پھر بے ساختہ منہ سے نکلتا ہے کتنا مشکل ہے جگر گوشوں کو گود سے گور میں رکھنا۔

آج بھی سولہ دسمبر کے اس روح فرسا واقعے کو یاد کرتے ہیں تو وجود ساکت ہو جاتا ہے۔
لیکن ظلم یہاں تک نہیں رکا۔ ظلم کو ابھی peak پر جانا تھا اور وہی ہوا ظلم اپنی انتہا پر گیا دو تین چار سال نہیں، دو تین چار گھنٹوں کے نومولود بچے۔ اف،ایسا لکھتے وقت ہاتھ کانپ رہے ہیں۔ ماں کے شکم سے نکلتے ہی دھرتی ماں کے شکم میں چلے گئے۔ بچ جانے والے نومولود بچوں کو ہم کیا کہہ سکتے ہیں کہ وہ خوش قسمت بچے ہیں، جو اس دہشت کا نشانہ نہیں بنے۔ ماں کی ممتا کے بغیر بھلا وہ کیسے خوش رہ سکتے ہیں۔

انسانوں کے چہرے دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ ایک طرف وحشت سے بھرے چہرے دوسری طرف محبت سے بھرے چہرے۔

واقعے کے بعد نو مولود بچوں کی نگہداشت کے لیے ایک شفیق رحم دل ماں دودھ پلانے کی غرض سے پہنچتی ہے، چند شفیق اور ہمدرد انسانوں نے بچ جانے والے بچوں کو گود لیا۔

ایک طرف ظلم اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے، دوسری طرف انسانوں کا ایک انبوہ ہے، جو شفقت اور ہمدری کا پیکر ہے۔ وحشت چاہے کسی بھی حد تک پہنچ جائے، اسے ہمیشہ منہ کی کھانی پڑتی ہے۔ ظلم کو شکست دے کر انسانیت ہمیشہ جیت جاتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔