شہید خالد عرف گزین ایک عظیم سپاہی – عرفان بلوچ

600

شہید خالد عرف گزین ایک عظیم سپاہی

تحریر: عرفان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

میں شہید کی حالت زندگی اور بلوچ قومی تحریک میں شہید موصوف کے بارے میں چند سطریں لکھنے کی کوشش کررہا ہوں۔ میں اپنے علم و بساط کے مطابق شہید کے کردار اور حالت زندگی پر انصاف تو کجاء، میں اس عظیم سفر کے ایک قدم کابھی صیح معنوں میں بیان سے قاصر ہوں۔ میرے پاس وہ الفاظ نہیں ہیں کہ میں اس کےبارہےمیں لکھوں کیونکہ وہ ایک عظیم اور بہادر انسان تھے۔ بہادر بہت قسم کے ہوتے ہیں لیکن اس کی بہادری کسی اور طریقے کی تھی، میں سوچتا ہوں بہادر انسان کیوں زندہ نہیں رہتے ہیں کیونکہ بہادر اپنے بہادری کی وجہ سے شھید ہوتے ہیں، بہادر سینے تان کر دشمن کی بندوق کے نوک سے نکلے ہر گولی کا مقابلہ کرتے ہیں، تادم آخر شہادت نوش کرتے ہیں لیکن پیچھے جانے کا نام تک نہیں لیتے ہیں۔

بہادر لڑتے ہیں، بہادری سے قربانی دیتے ہیں، بہادر تکلیف برداشت کرتے ہیں، بہادر سرزمین سے عشق کرتے ہیں، بہادر سرزمین سے عشق کرتے ہیں، وہ بھی ایک بہادر شخص تھا، ایک استاد شعوراور ہنر کا مالک تھا، وہ ایک مخلص ساتھی تھا، وہ ایک وطن پرست تھا، وہ ایک غریب باپ کا بیٹا تھا، وہ ایک غریب فیملی سے تعلق رکھتا تھا۔ تاریخ گواہ ہے اکثر غریب گھرانے سے ہی انقلابی لوگ پیدا ہوتے ہیں کیونکہ غریب کو پتا ہوتا ہے غلامی کا احساس انہی غریبوں کو ہوتا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں غلامی کی زنجیروں کو آج نہیں توڑو گے آنے والی نسلیں برباد ہونگے۔

وہ اس لئے اپنے تمام رشتے، ایک جانب رکھ کر میدان جنگ میں جاتا ہے اور آخری گولی تک دشمن کے سامنے سینہ تان کردشمن کے ساتھ لڑتے ہیں اور وہ اس بات کو باور کراتے ہیں کہ ہم نے سر نہیں جھکایا اور موت کو گلے لگایا ہے، ہم دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جیئے ہیں، ہم سینے میں گولی کھا کر موت کو گلے لگایا ہے، ہم نے انقلاب زندہ رکھنے کےلئے خون بہایا ہے، ہم نے غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کے لئے خون بہایاہے، اگر ہم دن زندہ رہے ہیں تو انقلاب کے ساتھ جیئے ہیں، سرزمین سے عشق کرکے جیئے ہیں، ہم نے یہ جانا کہ محبت کیسے کرتے ہیں اور نفرت بھی کیسے کرتے ہیں اور سر بلند کرکے جیئے اور سرجھکانے کے بجائے موت کو گلے لگانے کو زیادہ ترجیح دی ہے۔

میں جس بہادرفرزند کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہونگا، وہ جبری پرائمری سکول میں 5 جماعت تک پڑھا تھا 6سے10جماعت تک مشکے نوکجو ہائی سکول میں تعلیم حاصل کی ۔ 2010میں بی ایس او آزاد میں شامل ہوئے تھے، تو اس کے بعد 2014 میں بلوچستان لبریشن فرنٹ میں شامل ہوگئے اور 2019 فروری 25 کو واشک میں اپنے قومی فرض کو نبھاتے ہوئے شہید ہوگئے۔

اس کی شہادت نے ہمیں مزید مظبوط کیا اور اسی دن شہید کی ماں نے پیغام دیا کہ میرا ایک بہادر بیٹا شھید ہوا، میں کمزور نہیں ہوں، میں مزید مضبوط ہوا ہوں، میرا ایک بیٹا شھید ہوا ہے اور چار بیٹے مزید ہیں، میں ان کو بھی سرزمین کےلیے قربان کروں گا اور میرے پاس بیٹے سے بھی بڑا چیز ہوتا تو میں اس کو بھی قربان کرتا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔