شہداد و احسان – زیرک بلوچ

808

شہداد و احسان

تحریر: زیرک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

وہ منظر کتنا دلکش ہوتا ہے، جب تم اس منظر کے لئے اپنی پوری زندگی وقف کردیتے ہو، زیست کی تلخیاں ہنسی خوشی پینے کے عادی ہو جاتے ہو، ہر ایک قدم پہ اپنی قوت اسی منظر کو حاصل کرنے کے لئے جہد مسلسل پہ یقین رکھ کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے رہتے ہو، فکری و نظریاتی طور پر خاموش لمحوں میں خود کو پھرکھتے، دیکھتے اور سوچتے جاتے ہو۔ کب اور وہ کیسا لمحہ ہو، جہاں مجھے یقینی سکون میسر ہو، جہاں میں بانہیں پھیلا کر چیخ کر یہ دعویٰ کرسکوں کہ جس کی تگ ودو میں اپنے زندگی کا ہر لمحہ شعوری و لاشعوری طور پر اسی منظر و منزل کو حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہتا۔

شہداد و احسان انہیں میں سے تھے، جنہوں نے اپنے لہو سے تحریک کو روح بخشا، تعلیمی اداروں سے لے کر پہاڑوں تک کا سفر طے کیا، ایک کارواں جو جاری و ساری ہے، اسے مزید پختگی عطا کی۔ شہید الیاس، شہید کمبر چاکر، شہید رضا جہانگیر سے شہید شہداد و احسان تک اسی ایک ہی منزل کے دیوانوں میں سے جن کے شعور پہ قومی آزادی کا مقام سب سے بلند ترین تھا۔ شہداد نے جاتے جاتے neo colonializer کے منہ پہ ایک زور کا تھپڑ رسید کردیا کہ یہ مراعات و ذہنی غلامی مجھے اپنے قومی کاز سے دور نہیں کر سکتے۔

ڈگری کے مکمل ہوتے وقت ہر نوجوان کے سامنے ایک نئی زندگی کے دوڑ میں شامل ہونے کا وقت ہوتا ہے، جہاں پیسے سے لے کر زیست کے سامان کو مزید سے مزید تر رکھنے کی ایک کوشش ہوتی ہے کہ جو ایک سستی نوکری سے شروع ہوکر ایک لاچار بوڑھے کی زندگی پہ ختم ہوجاتی ہے، جو کمیشن کے ٹیسٹ کے دوڑ سے لے کر ماسٹرز ڈگری ہولڈر کا ایک کلرک کی نوکری تک ختم ہوجاتی ہے۔ اچھی نوکری، اچھا گھر، خوبصورت بیوی، سواری، بینک بیلنس، آگے پیچھے سلام ٹھوکنے والے گارڈز، خوبصورت سے بچے اور ایک غیر مطمئن موت، جو بستر مرگ پہ آتے وقت بس ایک سوال کردے کہ زندگی میں اتنا کرنے کے بعد اب کہاں ہو، تو اسی وقت جسم سے کیڑے نکلنے شروع ہوجائیں۔

شہداد و احسان اس بات پہ فخر محسوس کررہے ہونگے کہ انہیں موت بھی آئی تو قومی محاذ پہ آئی۔ اف کتنے قہقہے لگا رہے ہیں ہونگے آج پھر وہ کسی دیوان میں سگریٹ کی دھوؤں سے جگر کو آگ لگا کر قومی کاز کے موضوع پہ بات کررہے ہونگے۔ شہداء کے قربانی نے تحریک آزادی کو ایک نئے موڑ پہ لے آیا، آج طالب علموں کے لئے ڈاکٹر یا کمشنر بننے والے آئیڈیل نہیں ہونگے بلکہ ان کی جگہ مراعات کو ٹھکرانے والے شہداد و احسان ہونگے، جنہوں نے زندگی میں اپنے وجود کے معنی کو تلاش کرکے دوسروں کے لئے زندہ رہنے کے فلسفے کو روح بخشا۔ بقول سارتر being for others ایک وجود جو شعوری طور پر تمام مادی مراعات سے بڑھ کر یہ سوچتا ہو کہ اسکے وجود کا مطلب و معنی کیا ہے۔

کاش شہداد و احسان بیٹھ کر یہ سوچتے کہ وجود ہے ہی نہیں اور بیٹھ کر شاعری کرتے ۔ ۔ ۔ کاش! وہ یہ سوچتے کہ زندگی کے معنی بس کسی کے آغوش کے ہیں ۔ ۔ ۔ کاش وہ یہ سوچتے کہ سی ایس ایس کے تیاری کے بعد وہ پرسکون زندگی گذار لیتے ۔ ۔ ۔ کاش وہ یہ سوچتے کہ ریاستی نوکری ( غلامی) سے اپنی بوڑھاپے تک زندہ رہتے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر انہیں شاید یہ راس نہیں آیا کہ یہ تو زندگی نہیں شہداء کا فیصلہ شعوری فیصلہ تھا کہ انہوں نے مجبور حالت میں نہیں بلکہ اپنے فرض سے منہ نہ پھیرنے کے سبب اس راہ کا انتخاب کیا، جس کے لئے ہزاروں گمنام شہیدوں نے قربانی دی ہے۔

بابا مری نے بالاچ کی شہادت پر ایک جملہ کہا تھا، مجھے اسی جملے کی گونج اب ہر طرف سنائی دے رہا ہے کہ
زندہ رہتا، بھوکا ہوتا، مشکلیں جھیلتا مگر زیادہ کام کرتا


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔