شعور پر اجارہ کس کا؟
برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
رومانویت و جذباتیت کا شکار، مہم جو و انتہاء پسند وغیرہ جیسی اصطلاحات و جملے اس تحریک کے ابتداء سے ہی ان پر کَسے گئے ہیں، جو اپنی جان، اپنا مستقبل اور سب کچھ اجتماعی قومی مفاد و مستقبل کیلئے دھان کرچکے ہیں اور اگر دیکھا جائے کہ یہ جذباتیت کی شگان شروع دن سے کس سمت سے من گھڑت دلائل کی جگالی میں پیش کیا گیا ہے تو آپ کو نظر آئے گا اس میں سرفہرست نام نہاد پارلیمان پرست “قوم پرست”، جن کی پوری سیاست کا حاصل جمع ذاتی بینک بیلنس کو نکال کر دیکھا جائے تو قوم کیلئے صفر، سوشلزم کے داعی جن کے کتابوں کے وہ پنے دیمک چاٹ گئی ہے، جن میں قومی سوال پر مارکسی نقطہ نظر بیان کیا گیا ہے، حیران کن طور پر بلوچستان میں سامراجی بربریت کے بجائے انکو مسئلہ یہ نظر آتا ہے کہ کیسے بلوچ چراوہے کو پنجابی گجر کا بھائی بنایا جائے اور بلوچ تحریک کے سابقہ وہ جہدکار و سیاسی کارکنان جو تحریک کی طوالت سے تھک گئے، یا ریاستی تشدد سے ڈر گئے، یا خود ہی تحریک کا ایک تصوراتی خاکہ ذہن میں نقش کرکے آئے اور جب زمینی حالات کی کڑوی سچائی انکے خیالوں کے محل سے ہم آہنگ نہیں ملا تو مایوس و کنفیوز ہوگئے۔
اب تو جگہ جگہ یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ وہ اشخاص بھی ان اصطلاحات کو زیر استعمال لا رہے ہیں، جو کچھ وقت قبل ان مایوس و کنفیوزڈ لوگوں کو ڈرپوک و مفرور اور نوجوانوں کو گمراہ کرنے اور قومی جنگ سے دور کرنے کا مورود الزام ٹہراتے تھے لیکن اب خود وہ اسی گنگا میں نہاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہیں کیوں؟ اس وقت کم علمی یا کم تجربہ تھا یا اب؟
سیاست کی یہ لائن قابل ترس بھی ہے، مذکورہ لوگوں کی باٹ مختلف گروہوں میں کی جاسکتی ہے لیکن دراصل یہ ایک قبیل کے ہیں۔ اس قبیل کا وسیلہ یہ ہے کہ یہ جانتی ہے کہ پاکستان ایک غیر فطری، غیر فلاحی، سامراجی، جابر ریاست ہے اور اس ریاست کے اندر برحق سیاست، صحافت اور کوئی بھی تحریک ناقابلِ برداشت اور قابلِ گردن زنی ہے لیکن یہ لوگ ریاست کی ناراضی کا بوجھ اٹھائے بغیر، ایک عمومی زندگی کا خواب لیئے سیاست کرنا چاہتی ہے۔ اور پھر بھی خود کو انقلابی، سرخے یا قوم پرست بھی کہلوانا چاہتے ہیں۔ پھر یہ ایک ایسا لائن ڈھونڈتے ہیں کہ جن میں انکی عمومی آرام دہ زندگی بھی سلامت رہے، یہ ظالم ریاست بھی ناراض نا ہو اور وہ انقلاب و آزادی کا چوغہ بھی پہنے رکھیں۔ اب ظاھر ہے اگر وہ اس ریاست کے اندر کوئی بھی بامعنی سیاست کریں گے تو انکے پاس صرف تین راستے بچتے ہیں، زندان، گور یا پہاڑ۔ اگر آپکو ریاست چھو نہیں رہی تو پھر یا تو آپ نے ساز باز کرلیا ہے یا پھر آپ کوئی حقیقی سیاست ہی نہیں کررہے، لیکن انکا پھر بھی اچھے سے کٹ جاتا اگر کھرے اور کھوٹے کا فرق ظاھر کرنے والا کوئی نا ہوتا۔ جب دوسری طرف سیاسی کارکن حق بات کیلئے اس جابر سامراجی ریاست کا قہر مول لینے کیلئے تیار ہوں اور اپنا سب کچھ تیاگ دیں تو پھر اس لائن کے لوگوں کی اصلیت واضح ہوجاتی ہے۔ تبھی پھر یہ رومانویت، جذباتی و مہم جو والے تیر اپنے ترکش سے برسا کر سمجھتے ہیں کہ انہوں نے شعور کی دیوی سے شعور کا ٹھیکہ اٹھایا ہوا ہے اور باقی سب گدو بندر سے فارغ ہوکر سیدھا پہاڑوں میں لڑنے آئے ہیں۔
تبھی ان پر پھر ملاؤں اور پادریوں کا روح بھی سوار ہوجاتا ہے، جس طرح ملا و پادری سختی پاکر جلدی سے قرآن و بائبل کو ڈھونڈتے ہیں اور وہاں سے کوئی آیت نکال کر تشریح کرکے جان خلاصی کرتے ہیں۔ اسی طرح کا نظارہ یہاں بھی ملا، جب نظر پڑا کہ یہ قبیل ملاؤں کی طرح فینن کو چھان مار کر اپنے لیئے کچھ وہاں سے نکال لائے ہیں، اور دنگل بجارہے تھے کہ دیکھو یہ بے شعور پہاڑی قوم پرستوں کے پاس کوئی پروگرام نہیں ہے اور یہ قوم پرست نہیں نسل پرست ہیں۔
کیا کسی کو یقین آسکتا ہے کہ جو مررہا ہے، اسے پتہ نہیں ہے کہ میں مر کیوں رہا ہوں؟ جو لڑنے آیا ہے، اسے پتہ نہیں ہے وہ لڑ کیوں رہا ہے؟ ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ بلوچ کی تحریک ایک اجتماعی خود کشی کا مشین ہے۔
میں وثوق کے ساتھ کہتا ہوں کہ آپ ان سے پوچھیں کہ “پروگرام” کی ذرا وضاحت کریں، انکے ذہن میں جدید ریاستوں کے آئین سے مشابہہ ایک دستاویز کا نقشہ ہوگا، جس میں خارجہ، معیشت، مزدور، خواتین وغیرہ جیسے چیدہ چیدہ سرخیاں ہونگی۔ اب انکے ذہن میں جو خاکہ آگیا ہے، اس پر اگر کوئی پورا نا اترے تو سب بیکار ہے۔ شہید کا بہتا مقدس لہو بھی بس خودکشی ہے۔ اچھا جناب! اس میٹر کا نام بتائیں، جس میں آپ نے شعور ناپا تھا اور آپکی زیادہ نکلی تھی اور لڑنے والے کا کم؟ اور اب جو آپکے ناپ پر پورا نا اترے وہ بیکار۔
تحریری پروگرام و غیر تحریری پروگرام، تحریک کے کس مرحلے میں کیسا پروگرام دینا چاہیئے وغیرہ وغیرہ بہت طویل بحث ہے۔ اس پر بحث کرتا، بس تھوڑا بھی یقین آتا کہ آپ جاننا چاہتے ہیں، اپنے نظریاتی فرار کے کچی سڑک کو پکی کرنا نہیں چاہتے۔
بلوچ تحریک میں ایک یونٹ سے لیکر مرکز تک، مزاحمت کے ایک کیمپ سے لیکر سینٹرل کمانڈ تک ہمیشہ سے ایک بات اتنی دہرائی گئی ہے کہ ہر سیاسی کارکن کو ازبر ہوچکی ہے کہ ہم پنجابی یا پاکستانی فوج پر اسلیئے حملہ نہیں کرتے کہ وہ نسلاً پنجابی ہیں، بلکہ اسلیئے کہ وہ ہمارے ملک آئے ہیں اور قبضہ کیا ہوا ہے اور ہمیں مار رہے ہیں۔ اسلیئے ہم کبھی لاھور جاکر انہیں نہیں مارتے۔ ایک فوجی کاروان کو نشانہ بنانا اور اس سے لڑنا جان جوکھوں میں ڈالنے کا کام ہے، ایسے کاموں کے دوران کئی جان نثار شہید ہوچکے ہیں اور طالبان کی طرح پنجاب کے کسی شہری علاقے میں شہر کے بیچ میں ایک بم پھوڑنے سے کئی گنا زیادہ پنجابی بہت کم خطرہ لیکر مارے جاسکتے ہیں۔ لیکن بلوچ مزاحمت کاروں نے ہمیشہ جان کی بازی لگائی، جان قربان کیئے اور مشکل راستہ اختیار کیا۔ جاکر فوج اور فوج کے براہ راست ایجنٹوں کو بلوچستان میں نشانہ بنایا۔ کس لیئے؟ اسلیئے کہ بلوچ دفاعی جنگ لڑرہا ہے، اپنی انسانیت بچانے کی جنگ لڑرہا ہے، مشکل راستہ چن رہا ہے تاکہ کوئی معصوم کی جان نہیں چلی جائے، دوسرے کے ملک میں گھس کر انہیں نہیں ماررہا۔ کیونکہ بلوچ شاونسٹ نہیں، بلوچ نسل پرست نہیں۔ بلوچ محب وطن ہے، قوم پرست ہے، ترقی پسند ہے۔ جو فلسفہ جس پر بلوچ 70 سالوں سے انتہائی سختی سے کاربند ہے، کوئی شخص آکر اسی کی پٹی پڑھانا شروع کرے تو پھر شک ہونے لگتا ہے کہ مقصد نیک نہیں۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ جب بھی اور جہاں بھی جدوجہد کا سفر طوالت اختیار کرتا ہے اور مشکلات کے مراحل میں داخل ہوجاتا ہے تو جدوجہد کے شروعات کی نسبت قابض کی جبر و بربریت اور تشدد میں تیزی آجاتی ہے۔ اگر کوئی احساس و پختہ شعور کی بنیاد پر تحریک کے ساتھ وابستہ نہیں ہوا ہو، صرف جذبات و تصورات کی بنیاد پر وابستگی ہو تو تحریک کے اس پرکھٹن مرحلے میں تھکاوٹ ذہن پر سوار ہوگا۔
جذبہ کیا ہے؟ جذباتی پن کیا ہے؟ یہ کہاں سے شروع ہوتے ہیں اور کہاں پر ختم؟ ان کے سرحدات کہاں پر ہیں؟ یہ کیسے اخذ کیا جاتا ہے کہ جذبات کی موجودگی میں شعور کا وجود نہیں ہوتا؟ کیا شعور جذبی کیفیات کا نفی ہے؟ یا جذبات کی موجودگی میں شعور پنپ نہیں سکتا۔ ایسا کیوں ظاہر کیا جاتا ہے کہ وطن کا وہ قوم پرست بیٹا، جو محبت کے جذبات میں آکر لڑ مرتا ہے وہ شعور سے عاری ہے؟ کیا آج تک کوئی بھی علمی و فلسفیانہ اور نفیساتی بنیاد پر ایسی ریسرچ ہے جو یہ ثابت کردیے کہ جذبہ و شعور، محبت و عقل ایک ساتھ ایک انسان میں ایک ہی وقت میں نہیں رہ سکتے؟ میرے خیال میں ہرگز نہیں، یہ جو سطحی تجزیات و سطحی علم کی بد ہضمی اور پھر تیزی تیزی کے ساتھ اصطلاحات کی جگالی ایک نظریاتی مفرور کی نشانی ہے۔ جب بھی تھکاوٹ ذہن پر سوار ہوا، تو الماری میں پڑے ہوئے ان سنی سنائی اصطلاحات کو استری لگا کر پہن لیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں دوسرے کو بھی پہنا دیں تاکہ حساب برابر ہو، سب ایک جیسے لگیں۔
تعلیمی ادارے کتاب، اسٹیج، تحریر و تقریر، سرکل اور شعور کو جنم دیتے ہیں، پھر وہی شعور سفر کرتے ہوئے اپنے مختلف اعلیٰ اشکال میں خود کا اظہار کرتی ہے، اسی شعور کے بلندی کا ایک اظہار ہاتھوں میں بندوق تمھا دیتی ہے بالکل میرے نزدیک یہ شعور کی ایک بے انتہاء پختگی اور انتہاء ہے، لیکن کوئی اگر یہ سفر الٹا طے کرے پھر؟ کوئی پہلے بندوق اٹھائے، پھر بندوق چھوڑ کر کتاب، تعلیمی ادارے، اسٹیج، تحریر و تقریر، سرکل، سفارتکاری وغیرہ کو شعوری و پختہ اور جذباتیت سے ہٹ کر سنجیدہ سیاست کا نام دے اور بندوق اٹھا کر جان لڑانے کو مہم جوئی تو پھر یہ شعور کا کونسا قسم ہے؟ کہیں یہ زوالِ شعور تو نہیں؟
ایسی مزاحقہ خیز دلائل گھڑی جاتی ہیں کہ جواب دینا اور اس بحث میں پھنسنے سے ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ کہیں، میں انکا رچایا کھیل کا تو حصہ نہیں بن رہا۔ جی جنگ جذبات کی بنیاد پر نہیں شعوری بنیاد پر لڑی جائے بالکل ٹھیک جناب، اس سے کس بے وقوف نے آج تک انکار کیا ہے، اور جناب آپ نے یہ کیسے اخذ کرلیا کہ جب کوئی لڑرہا ہوتا ہے، جس کی جان کی بازی لگی ہوتی ہے، وہ ایک بار بھی نہیں سوچے گا کہ وہ اپنا عقل و شعور کا پورا استعمال کرے؟ یا آپ کو یہ گمان ہے کہ کتابوں اور فیس بک پڑھتے یہ راز صرف آپ پر کھلا ہے؟
جی جنگ میں کیوں پڑھے لکھے اور باشعور نوجوانوں کو شامل کیا جاتا ہے؟ انہیں کیوں مروایا جاتا ہے؟ جی جناب! اگر پڑھے لکھے اور باشعور شامل نہیں ہونگے، تو پھر جنگ کو شعوری بنیادوں پر کون استوار کریگا؟ مطلب آپ ایک ایسی جنگ چاہتے ہیں جو مکمل طور پر شعوری بنیاد پر ڈھلا ہوا ہو، لیکن اس میں کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان شامل بھی نا ہو۔ یعنی آپ سو کلومیٹر فی گھنٹہ کے رفتار سے اپنی گاڑی دوڑانا چاہتے ہیں، لیکن انجن کے بغیر۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو آپ ناراض ہوکر اس جنگ کو جذباتی، مہم جوئی اور نسل پرستی کہیں گے؟ جی اچھا سمجھ گئے۔
جی سیاسی لوگ، سیاسی کام کریں، جنگ کا حصہ کیوں بنتے ہیں؟ اگر موجودہ جنگ میں سیاسی لوگ مسلح نہیں ہوتے تو آج خود آپ کی جنگ کا پوزیشن کیا ہوتا ؟ ایک سیاسی جنگ کو سیاسی لوگ ہی شروع کرسکتے ہیں۔
ویسے جناب، بلوچ کی جنگ ہی ایک سیاسی جنگ ہے، اگر اس میں آپ کے سیاسی کارکن، مزدور، طلباء، صحافی، دانشور، لکھاری، ادیب وغیرہ سب شامل نہیں ہونگے، نہیں لڑیں اور شہید نہیں ہونگے، پھر یہ جنگ لڑیگا کون؟ کیا ہم کسی اور قوم سے ٹھیکے پر مزدور لائیں جو ہماری آزادی کی جنگ ہمارے لیئے لڑیں؟
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔