سلکِ بانڑی – برزکوہی

466

سلکِ بانڑی

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

11 جون 1980 کو جب عظیم انقلابی حمید بلوچ کو مچھ جیل میں تختہ دار پر پھانسی دینے لیجا رہے تھے، اس سے پہلے آپ اپنی وصیت میں لکھتے ہیں کہ میری بیٹی بانڑی اس وقت ڈھائی سال کی ہے، مجھے امید و یقین ہے کہ بانڑی جب بڑی ہوگی، ان کو میرے اوپر پشیمانی نہیں بلکہ فخر ہوگی۔

یہ سچ ہے کہ تاریخ کا پہیہ گھوم کر خود کو دہراتی ہے، ایک بانڑی، وطن کے عشق میں اپنے پیچھے شہید حمید نے چھوڑا، چالیس سال بعد ایک اور بانڑی اسی عشق کی تکمیل کے جستجو میں دودا نے اپنے پیچھے ایک پر فخر بیٹی کی روپ میں چھوڑ دیا۔

یوسف کرد عرف دودا اپنی شادی کے ٹھیک 3 ماہ بعد، جب اپنے قوم و وطن کا فرض و قرض نبھانے کی خاطر جنگی محاذ پر روانہ ہوتا ہے، تو آخری بات اپنی شلی سے یہ کہتا ہے کہ “شلی میں جارہا ہوں، میرے شہادت کی صورت میں، اگر ہمارے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو اس کا نام فرید رکھنا، اگر بیٹی ہوئی تو بانڑی۔”

عشق خاک، اس انتہاء تک پہنچ کر جنون کو چھوتے ہوئے، عقل و ہوش کو آسمانوں کے بلندیوں تک پہنچا کر ستاروں پر کمندیں ڈالتی ہے، اور ان ستاروں پر لکھے ہوئے کہانیوں کو پڑھاتا ہے، یہ جذبہ، جنون اور شعور کے شعلوں میں بھڑک اٹھنے والی بہادری کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یہ جنون کے بغیر بالکل ممکن نہیں کہ اپنی نئی نویلی دلہن شلی اور اپنی بیٹی بانڑی کو دیکھے بغیر، الوداع کہہ کر صرف غازی و شہادت کے سوچ کو لیکر ظالم و طاقتور دشمن کے خلاف محاذ پر لڑنے کے لیئے کمربستہ ہوجاؤ۔

یہ کسی کیلئے حیرانگی، حواس باختگی، عقل و گمان سے باہر کی بات اس وقت ہوسکتی ہے، جب شعور و علم کی سطح انتہائی ضعیف ہو۔ جہاں علم و شعور کی سطح بلندیوں کو چھولے، جہاں بہادری و عظمت کا چمکتا ہوا ستارہ صبح و شام شعور کے افق پر ٹمٹماتا ہو، وہاں لاکھوں معصوم بانڑی، باپ کے سائے سے محروم و یتیم ہونگے، لاکھوں شلی بیوہ ہونگے اور لاکھوں دودا خاکِ سمی وطن کی دفاع کی خاطر اپنی جان قربان کرینگے۔

جانثاری، جانبازی اور سرمچاری بالکل معمولی بات نہیں، یہ راستہ صرف کانٹوں سے سجا ہوا ہے، یہ معمول اس وقت بن سکتا ہے، جب اس راستے کا چناو و تعین، جذبہ و حوصلہ اور شعور کے ساتھ ہو، وگرنہ ڈگمگاتے قدموں، لٹکتے خیالوں اور الجھتے سوچوں کے ساتھ اس راہ کے راہی ہزاروں ہونگے، مگر منزل پر پڑاو چند ایک ہی ڈال پائینگے۔

جنگ کے بنیادی اصولوں میں سے ایک اہم اور بنیادی اصول ہی یہی ہوتا ہے کہ جنگ میں حوصلہ و جذبہ اور لگن شامل ہو، جنگ بہادروں کی تخلیق ہے، جب یہ خصوصیات کمزور ہوں، ختم ہوں، معدم ہوں پھر رفتہ رفتہ بزدلی خودبخود انسان کے دل و دماغ میں ڈیرہ ڈالتا ہے، جنگ ویسے بھی بزدلوں کی بس کی بات نہیں ہے۔

گر دودا کا جذبہ، حوصلہ اور جہد سے لگن مفلوج زدہ ہوتا، تو شلی و بانڑی اس کی کمزوری و مجبوری ثابت ہوتے، پھر وہ جنگ کے لیئے اور جنگ دودا کے لیے بوجھ بن جاتا۔

یہی تو فرق ہے ایک تنخواہ دار فوجی اور ایک رضاکار سرمچار میں۔ جنگ تنخواہ دار فوجی کی مجبوری ہوتی ہے، وہ تنخواہ کے لیئے لڑتا ہے، اپنے بچوں کے لڑتا ہے، بوجھ سمجھ کر لڑتا ہے، ایک رضاکار انقلابی فوجی اپنے بچوں کو چھوڑ کر جذبے، حوصلے اور لگن کے ساتھ رضاکارانہ طور اپنے آنے والے نسلوں کے لیے لڑتا ہے، یہی فرق اصل میں کامیابی کا طرہ ان کے سر پر سجاتا ہے، جو جنگ کو جنگ سمجھ کر لڑتے ہیں یا لڑ رہے ہیں، جنگ کو بوجھ سمجھ کر نہیں۔

جذبہ کہاں تک کس سطح تک؟ اور حوصلہ کیسا؟ لگن اپنے کام اور اپنی ذمہ داری سے بغیر جذبے کے ممکن نہیں اور بغیر حوصلے سے کامیابی نہیں مل سکتا۔ بہرحال یہ بنیادی و جنگی خصوصیات آپس میں لازم و ملزوم ہیں، ان کے بغیر یا ان کی ضعیف شکل میں جنگ سے وابستگی خود کے ساتھ ساتھ پوری جنگ کے ساتھ ناانصافی اور دھوکا ہے اور ایسے جہدکار جنگ کے لیئے بوجھ بن کر آنے والے جہدکاروں کے لیئے بھی وہ علامت ہوتے ہیں، جن سے نوخیز جہدکار اثر انداز ہوکر، ایسے ہی رویوں کا شکار ہوجاتے ہیں، جس کا پورے جنگ پر انتہائی خطرناک اثر مرتب ہوتا ہے۔

نوخیز نوجوان، ہمیشہ جذبہ و حوصلہ اور لگن کے ساتھ جنگ کا حصہ بنتے ہیں، ان کو جنگ میں کیسا رسمی و غیر رسمی تربیت و ماحول میسر ہوتا ہے؟ سب سے اہم اور بنیادی سوال یہی ہے، جس پر کس حد تک غور وفکر ہوا ہے اور ہوگا؟

ہم بحثیت جہدکار، شعوری یا لاشعوری، دانستہ یا نا دانستہ تربیت و ماحول تو فراہم کررہے ہیں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ تربیت و ماحول کس حد تک اور کہاں تک جنگی تقاضات و لوازمات کے من و عن مطابق ہے؟ اگر ذرا بھی وہ تقاضات و لوازمات کے منافی ہو، پھر کیا ایک جنگ کی کامیابی ممکن ہوگی؟

جب بھی جنگی تقاضات و لوازمات پوری جنگ اور ہر ایک جنگجو پر نافذ نہیں ہونگے، تو اس وقت آپ سمجھ لیں کہ میں ایک جاری ہوئی ہاری جنگ لڑرہا ہوں اور جب جنگ کا حصہ بن کر پھر بھی حوصلہ، جذبہ اور لگن نہ ہو پھر آپ جان لیں کہ آپ ایک ضائع جہدکار سے بڑھ کر اور کچھ نہیں۔

میری سرزمین، میری ماں ابھی تک بانجھ نہیں ہوئی ہے، شہیدوں کی یہ سرزمین ابھی تک اپنے جوبن پر ہے ، یہ ہر سمی کیلئے دودا جنم دیتا رہے گا، اور اپنے دوداؤں کے بیرگیری کیلئے بالاچ بھی پیدا کریگا۔ یہ ایک تاریخ ہے یہ ایک تسلسل ہے اور یہ سلسلہ تب تک چلتا رہے گا، جب تک ہم وطن کو ماں سمجھتے رہیں گے اور ماں کی طرح اسکی حفاظت کرتے رہینگے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔