بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے سانحہ ڈنک کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے واقعات بلوچ نسل کشی کا تسلسل اور ایک مخصوص و طاقت ور ذہنیت کی پیداوار ہے جو بلوچ سماج میں خوف کے ماحول کو برقرار رکھنے اور بلوچ سماج کی جڑوں کو کھوکھلا کررہی ہیں۔بلوچستان میں خواتین اور بچوں پہ حملہ ایک وبائی مرض کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ایسے واقعات ملوث عناصر کی ذہنی پسماندگی کی بھرپور عکاسی کرتی ہے جو چند ٹکوں کے عوض اپنے ضمیر کا سودا کرکے بلوچ خواتین اور بچوں پہ تشدد کے مرتکب ہوتے ہیں،سانحہ ڈنک میں ملوث عناصر ایک مخصوص ذہنیت کی سرپرستی میں بلوچستان بھر میں منشیات فروشی،چوری،ڈاکہ زنی،اغوا برائے تاوان اور قتل عام میں ملوث ہو کر بلوچ سماج میں افراتفری اور خوف کے ماحول کو جنم دے رہے ہیں۔
ترجمان نے مزید کہا بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیاں پوری شدت کے ساتھ جاری ہے۔میڈیا بلیک آؤٹ کی وجہ سے متعدد واقعات رپورٹ نہیں ہوتے جسکی وجہ سےریاست اور اسکے آلہ کاروں کی کاروائیوں میں مسلسل اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
اس واقعہ سے قبل بھی بلوچستان میں خواتین اور بچوں کو تشدد کے بعد نا معلوم مقام پہ منتقل کیا گیا۔خاران میں حلیمہ، مشکے سے ناز گل، تمپ سے بی بی شہناز جبکہ آواران اور جھاؤ سمیت بلوچستان بھر میں خواتین کی ماورائے عدالت گرفتاری اور شہادت کے ساتھ خواتین پہ تیزاب پاشی کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔
ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ ایسے عناصر جو ریاستی سرپرستی میں بلوچ سماج کی جڑوں کو ایک مخصوص سوچ کے تابع بنانے پہ تلی ہوئی ہے سماج کے لئے ناسور کی حیثیت رکھتی ہے۔ایسے عناصر کا قلع قمع اتحاد و یکجہتی کی طاقت سے ہی کیا جاسکتا ہے اور اتحاد و یگانیت سے ہی اس مخصوص سوچ کو شکست سے دوچار کیا جاسکتا ہے۔