زہری واقعہ اور کچھ حقائق – شعبان زہری

458

زہری واقعہ اور کچھ حقائق

تحریر: شعبان زہری

دی بلوچستان پوسٹ

یہ بات سچ ہے کہ غیر (دشمن) سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش اور سستی شہرت حاصل کرنے کی لگن نے انسان کو بہت بڑے نقصانات سے دوچار کیا ہے، اور پھر وہ انسان کی حالت دھوبی کے کُتے جیسی ہو جاتی ہے کہ نہ وہ گھر کا رہتا ہے نہ گھاٹ کا-

کچھ یوں ریاست پاکستان، نوجوان نسل کو جہد آزادی بلوچستان کے سرمچاروں کے خلاف استعمال کر رہی ہے، اور نوجوان نسل بڑے شوق سے استعمال ہوتے جارہے ہیں- یہ حقیقت ہے کہ انسان سے حیا اور احساس ختم ہوجائے تو پھر انسان جو کچھ کرے ضمیر پر کوئی اثر نہیں پڑتا-

گذشتہ دنوں زہری میں پیش آنے والے ایک واقعہ کا ذکر کرنا چاہوں گا، جہاں بھرے بازار میں بلوچ سرمچار گوریلا حکمت عملی کا بہترین استعمال کرتے ہوئے 3 افراد پر فائر کھول دیتے ہیں، جس میں لیویز کا ایک اہلکار ریاض رئیس زخمی اور اُس کا دَست راست سلمان موقع پر جاں بحق ہو جاتا ہے – سلمان جوکہ معاشرتی برائیوں کی تکمیل میں ریاض رئیس کے ساتھ برابر کا شریک تھا- مقامی لیویز کے ہاتھوں ایک بار جیل بھی جا چکا تھا- یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ ریاض رئیس نے وہ کونسا گناہ کیا تھا جس کی وجہ سے بھرے بازار میں اس کو دوستوں سمیت نشانہ بنایا جاتا ہے اور پھر مسلح تنظیم بی ایل اے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتی ہے؟ پچھلے تین سالوں سے ریاض رئیس جہد آزادی میں شامل سرمچاروں کے خلاف متحرک تھا، ریاست اور نوابوں کی ہدایات پر عمل پیرا ہوکر مختلف گناہوں کا مرتکب ہو رہا تھا-

ریاض رئیس ریاست اور نوابوں کے کہنے پر لیویز کے وردی میں ملبوس منشیات کا کاروبار، ڈکیتی و اغواء برائے تاوان کے مختلف جرائم میں براہ راست ملوث تھا، یہ بات مقامی لوگوں سے ڈھکی چھپی نہیں کہ آج ان باتوں کو تفصیل سے بیان کی جائے، بلکہ زہری کا ہر ایک نوجوان بخوبی واقف تھا کہ ریاض رئیس ایک گروہ کا سرغنہ رہ کر کھلے عام نوجوان نسل کو منشیات کا عادی بنا کر بلوچ دشمنی میں استعمال کر رہا تھا-

ریاض رئیس 6 مہینے پہلے اغواء برائے تاوان کے ایک کیس میں 3 مہینے سلاخوں کے پیچھے گزار چکا تھا، لیکن با اثر شخصیات کی سفارش پر جیل سے رہائی کے بعد اپنے مشن کو جاری رکھتے ہوئے نوجوانوں کو پھر سے گمراہ کر رہا تھا- جیل جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ علاقے میں پھیلنے والی بد امنی میں ریاض رئیس کا بھرپور حصہ تھا-

روز اول سے یہ نواب اور پنجابی نہ ہمارے خیر خواہ تھے، نہ ہیں اور نہ ہی رہینگے- یہ بات بلوچ نوجوانوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر جہد آزادی بلوچستان میں کردار ادا نہیں کر سکتے تو پنجابی اور نوابوں کے اشاروں پر ناچنے سے بھی باز رہیں-

بلوچ سرمچاروں کا تعاقب، دشمن کو معلومات فراہم کرکے ضمیر کا سودا کرنے سے پہلے یہ بات سمجھنا چاہیے کہ اپنوں سے لڑی جنگ میں صرف شکست اور بدنامی کے سوا کچھ بھی نہیں-

اب بھی وقت ہے، نوجوان نسل اِن جرائم پیشہ افراد سے دور رہیں جو بلوچ دشمنی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، نہیں تو سلمان کی طرح بے موت مارے جانے اور دلالی کا لیبل لگنے میں کوئی دیر نہیں ہے- والدین بھی اپنے بچوں پر نظر رکھیں کہ ہمارے فرزند کہیں کسی نواب کے جنگ کا تو حصہ نہیں بن رہے، جس میں صرف بدنامی کے سوا اور کچھ نہیں ہے- پنجابی اپنا زور لگا کر ان نوجوانوں کو پھر سے متحرک بنانے کی بھرپور کوشش کریگا، لیکن یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم کس طرح اس جنگ کو تسلیم کرتے ہیں –

بلوچ دشمنی میں ملوث وہ سارے نوجوان جو بھرپور کردار ادا کررہے ہیں اپنے رخ تبدیل کرکے، اپنا اور اپنے خاندان کا عزت محفوظ رکھیں- کیوں کہ غداری و دلالی کا لیبل لے کر جینا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے-

ڈاکٹر حضور بخش صاحب ایک عوامی نمائندہ ہونے کی حیثیت سے عوام کی خدمت میں ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں، اب اس جنگ (جو حضور بخش رئیس کے فرزند ریاض رئیس نے شروع کی ہے) کے روک تھام میں اپنا کردار ادا کرکے اپنے علاقے اور اس میں رہنے والے ہر گھر کو اس بد نما داغ سے بَچا لیں، ورنہ اس کے برعکس اپنے فرزند کو سپورٹ و کُمک دے کر ثناءاللہ زرکزئی و نعمت زرکزئی اور ریاست کے اشاروں پر بلوچ دشمنی میں مزید متحرک ہونے کی اجازت دے-


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔