زوال کیا ہے؟
برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
عظیم سلطنت روم اسلیئے زوال کا شکار ہوا کیونکہ وجود میں آنے والے اشرافیہ کو یہ لگا کہ انہوں نے ایک ایسی طاقت تخلیق کرلی ہے کہ اب وہ خود کسی قانون کے پابند نہیں اور جس کے ساتھ چاہے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ لوگ ان سے اتنے عاجز آگئے کے سیزر کی مطلق العنانیت کے سامنے رکاوٹ بننے کے بجائے اسے بسروچشم قبول کرلیا۔ مغربی سلطنت اسلیئے حرفِ زوال ہوئی کیونکہ سیزر اور اسکے حلقہ اشرافیہ کو لگا کہ بامِ عروج چومنے کے بعد عیش و سروت انکا پیدائشی حق ہے، اور اب ہر حال میں لوگوں کو انکا دفاع کرنے پڑیگا۔ ہسپانوی سلطنت کو کسی بیرونی حملہ آور نے نہیں اجاڑا بلکہ جب بام عروج پر پہنچنے کے بعد آرام پسندی و بدعنوانی کو انہوں نے اپنے شیوہ بنالیا تو وہیں سے زوال کی سیڑھیاں اترنا شروع ہوگئے۔ تاج برطانیہ، جب سلطنت کی توسیع کے بجائے مقصد محض چند گھرانوں کو فائدہ پہنچانے تک محدود ہوا، تو پھر لوگوں کا اسکے دفاع سے یقین اٹھ گیا، جو اسکے زوال پر منتج ہوا۔ فرانسیسی سلطنت اس وقت زوال کا شکار ہوا، جب جمود کے شکار قیادت سے لوگوں کا اعتماد اٹھ گیا اور جب بلغارین ریاست بے مقصد ہوکر آپسی تنازعوں میں گھِر گئی تو بالآخر منقسم ہوکر زوال پذیر ہوگئی۔
زوال آخر زوال ہوتا ہے، زوال قبل ازعروج وجود نہیں رکھتا، عروج سے زوال جنم لیتا ہے، جب عروج سے زوال کی طرف سفر شروع ہو، آخر کار زوال وجود میں آتی ہے۔ زوال چاہے سیاسی، معاشی، ریاستی، مذہبی، تہذیبی، قومی، تنظیمی، ادبی ہو یا انفرادی ، جب زوال آئیگی تو اس سے قبل زوال کی نفسیاتی علامات ایک ہی رنگ میں ظاہر ہونا شروع ہونگے۔ سب سے پہلے زوال کی طرف گامزن ہونے والوں کو اپنے زوال کے بارے میں خود علم نہیں ہوگا۔ اس وقت تک جب تک وہ زوال کی سیڑھی کی آخری سطح تک قدم نہیں رکھیں گے۔ زوال ایک بیرونی دشمن نہیں، بلکہ یہ ہمارے اندر بے خبری سے جنم لینا والا، ہمارے اپنے ہی عادات، اطوار، طریق اور مزاج سے پلنے والا دشمن ہے۔ جسے پال پوس کر ہم خود بڑا کرتے ہیں۔
زوال کی اہم علامات میں سے ایک علامت یہ ہے کہ جب تک کوئی عروج کی طرف گامزن ہوگا، اس وقت تک وہ ہر غیر معمولی کام، کارنامے، پیش رفتی و ترقی کو معمول سمجھ کر مزید کوشش و محنت کرتا رہے گا، وہ “کافی” کے ذہنی سکون پر پڑاؤ ڈالے بغیر اگلی منزلوں کی تیاریوں میں ہر وقت مگن رہے گا، جتن کرتا رہے گا۔ لیکن جب زوال شروع ہوتا ہے، تو معمولی سے معمولی کام اور کارنامے کو غیر معمولی و انتہائی اہم سمجھ کر اس پر بغلیں بجانا شروع کردے گا، حتیٰ کہ معمولی کاموں و سرگرمیوں کو سرانجام دیکر، دل کو بہلا کر انتہائی خوش و مطمین ہوگا کہ بہت کچھ سرانجام دے رہا ہوں حالانکہ جب وہ عروج کی طرف گامزن تھا یا عروج پر تھا تو وہ ہمیشہ سوچتا اور محنت کرتا کہ کچھ اور زیادہ ہو، ابھی تک تو کچھ نہیں ہوا۔ لیکن جب وہ زوال کے جانب عازمِ سفر ہوگا وہ اس زعم سے ہی نہیں نکل پائے گا کہ وہ ایک ایسے اونچائی پر ہے، جو بامِ عروج ہے، اب اس نے سب کچھ حاصل کرلیا۔
اگر آپ زوال و عروج کی تاریخ کے تمام نفسیاتی پہلوؤں کا باریک بینی سے تجزیہ کریں، آپ کو یہ ضرور سوچ و زاویہ نظرملے گا کہ اب تک کچھ نہیں ہوا ہے، ابھی تک بہت کچھ ہونا باقی ہے، یہ عروج کی علامات ہیں۔ بہت کچھ ہورہا ہے، خوش و مطمین رہنا ہے، یہ زوال کی علامات ہیں۔
عروج کی کوکھ سے عاجزی و انکساری، مخلصی، محنت و مشقت، لگن و دلچسپی جنم لیتا ہے، جبکہ واپس زوال کی طرف لوٹنے سے گھمنڈ و غرور، بے حسی، لگن کا فقدان، عدم دلچسپی، سستی و کاہلی، بیگانگی اور غفلت کے امراض سر اٹھائینگے۔
اگر ہم یہ کہیں کہ زوال عروج کی کوکھ سے جنم لتا ہے، تو اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ دورانِ عروج ان تمام منفی لوازمات کو پورا کیا جاتا ہے جو خود زوال کو مدعو کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہر عروج زوال ہوتا ہے، زوال کی طرف سے واپس عروج پر بھی آیا جاسکتا ہے، اس وقت جب زوال کے اسباب و وجوہات کا صحیح معنوں میں جانکاری و علم ہو۔
ہر عروج و زوال میں آپ کو ایک اہم چیز انتہائی واضح انداز میں نظر آئے گا، جہاں بھی، کہیں بھی، اپنے مشن، مقصد، ریاست، سلطنت، قوم، تحریک، تنظیم یا ذمہ داریوں میں عدم دلچسپی و عدم توجگی، لاپرواہی، بیگانگی و آزاد خیالی نمایاں ہوا ہے، وہاں زوال کو پھر کوئی طاقت و کرشمہ نہیں روک پاتا ہے۔
عروج سے زوال کی طرف سفر میں ایک بہت بڑی وجہ، اپنی اس طاقت کو اپنی کمزوری بنالینا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے آپ نے عروج پایا تھا۔ آپ عروج اس وقت حاصل کرتے ہیں جب آپ وقت کے ضروریات کے مطابق بدلتے ہیں، اور تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھال دیتے ہیں۔ اور جو بدل نہیں رہا ہوتا ہے، وہ نظام، پارٹی، تحریک، شخص بوسیدہ ہوکر ڈیہہ جاتا ہے، پھر آپ اسکا جگہ لے لیتے ہیں۔ آپکے بدلنے اور وقت کے تقاضوں کو سمجھنے کی طاقت نے آپ کو عروج عنایت کی۔ لیکن اسی کو زوال کی بعد میں وجہ بنادیا جاتا ہے۔ عروج کے بعد مزید بدلنے اور نئے تقاضوں کو سمجھنے سے انکاری ہوا جاتا ہے، اور انہی پرانے تقاضوں کے ساتھ چمٹا رہا جاتا ہے، یہ سوچ کر کہ انکی وجہ سے عروج ملا تھا، درحقیقت عروج آپکے بدلنے کی طاقت کی وجہ سے ملا تھا۔ اب آپ مزید بدلنے کی صلاحیت خود میں پیدا نہیں کریں گے، تو آپ زوال کی جانب عازم سفر ہونگے اور آپکی جگہ کوئی اور لے لیگا جو وقت کے تقاضوں کو سمجھ رہا ہے اور بدل رہا ہے۔
جب علم و فن، ہنر و دانش، ترقی و خوشحال کی کوئی حد نہیں ہوتی ہے، پھر آخر وہ کونسا حد ہے، جہاں انسان پہنچ کر مطمئین ہوکرغرور و گھمنڈ اور برتری کا شکار ہوتا ہے؟ کیا معلوم ہم جیسے کم فہم انسان، جس چیز کو آخری حد سمجھتے ہیں، شاید وہ اس کا ابھی تک آغاز ہی نہیں ہے ؟
علم و فن اور ادب کے حوالے سے دیکھا جائے، ہم وہاں کھڑے ہیں، جہاں ترقی یافتہ و تاریخ بدلنے والی قومیں ہزاروں سال پہلے تھیں، جنگ و مزاحمت کے حوالے سے دیکھا جائے، شاید ہم اس طرف جارہے ہیں جہاں سے شروعات ہوئی، ہماری سیاست ابھی تک پنجابی سیاست کی کڑھائی میں پک رہی ہے۔ شاید یہ گندی طرز سیاست ترقی یافتہ قوموں میں صدیوں پہلے سے ہی معیوب اور مضحکہ خیز سمجھا جاتا تھا۔
یہ نظامِ فطرت ہے کہ ہر عروج کو زوال ہوتی ہے، پرانے کی جگہ نیا لے لیتا ہے، جو نہیں بدلتا وہ ختم ہوجاتا ہے۔ یقیناً عروج اپنے ساتھ ہی زوال کا بیج بو دیتا ہے، اگر غور کیا جائے تو مختلف رویوں و علامات کی صورت میں اسے دیکھا بھی جاسکتا ہے۔ اس نظامِ فطرت کو تو نہیں ٹالا جاسکتا لیکن حیرت اس بات پر ہوتی ہے، جب زوال کے شکار قوم میں سارے رویئے و علامات وہ دیکھو جو کسی بام عروج پر پہنچنے والی قوم میں ہونی چاہئیں تھیں، یعنی اطمینان، تسلی، عیش و سروت، بے پرواہی۔ اس سے تو ظاھر ہوتا ہے کہ زوال میں بھی معمولی کامیابی میں عروج کا سراب پالے ہوئے ہیں اور یہ رویئے تو مزید زوال پذیر کریں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔