داعش عراق و شام میں خطرناک انداز میں سرگرم ہورہا ہے

203

امریکہ میں دہشت گردی کا قلع قمع کرنے سے متعلق ذمہ داران کے حالیہ تجزیوں کے مطابق، داعش کے جنگجو اور اس کے پیروکار شام اور عراق میں اپنی نام نہاد خلافت کے خاتمے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے، زیادہ دلیر اور خطرناک صورت اختیار کر رہے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے خیال میں اس کی ایک وجہ ان کی طویل المیعاد منصوبہ بندی ہے۔ امریکہ میں دہشت گردی کی سرکوبی کے ایک ماہر نے عالمی نشریاتی ادارے کو بتایا ہے کہ داعش نے چند مہینوں کے عرصے میں مشرقی شام میں مقامی سطح پر خاص طور سے اپنے آپریشن کی صلاحیتوں میں بہتری پیدا کی ہے۔

اس عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بہت سی صورتوں میں داعش کی منصوبہ بندی اپنا رنگ دکھا رہی ہے۔ اس نے مزید بتایا کہ داعش نے شامی سیکورٹی فورسز کے خلاف کھل کر حملے کئے ہیں۔

عہدیداروں کے مطابق داعش نے السخنہ کے شہر میں کئی افراد کی مدد سے کئے گئے ایک حملے میں شامی افواج کو روند ڈالا۔ یہ شہر شمال میں حمص صوبے میں واقع ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ شہر کے کچھ حصوں پر داعش کے جنگجووں کا ایک دن سے زیادہ قبضہ رہا اور وہ روسی جنگی طیاروں کے مستقل جوابی حملوں کے بعد ہی پسپا ہوئے۔

امریکی عہدیدار نے  کہا کہ اس حملے سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ داعش ایک زیادہ باصلاحیت فوج کے خلاف بھی کھل کر محاذ آرائی کا خطرہ مول لینے کو تیار ہے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ داعش کے لئے پیسہ بھی فی الوقت مسئلہ نہیں ہے۔ امریکی عہدیداروں کا اندازہ ہے کہ اس دہشت گرد تنظیم کو اب بھی پانچ کروڑ سے تیس کروڑ ڈالر کی جمع پونجی تک رسائی حاصل ہے، جبکہ لوگوں سے رقم جمع ، لوٹ مار اور غیر قانونی تجارت کے ذریعہ مال جمع کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

تاہم، ان تمام اندازوں کے برعکس اتحادی فوجی عہدیدار مختلف زاویہ نگاہ رکھتے ہیں اور ان کی دلیل ہے کہ داعش ماضی کے مقابلے میں اب محض اپنا ایک سایہ ہے۔

مشترکہ ٹاسک فورس کے کمانڈر لیفٹننٹ جنرل پیٹ وائٹ کے مطابق داعش کے حملوں میں اب پہلے جیسا ربط نہیں ہے اور ان کے پاس جنگجووں اور پیسوں کی کمی ہے اور بیشتر علاقوں میں وہ لوگوں کی حمایت سے بھی محروم ہیں۔ لیکن بعض تجزیہ کاروں کے خیال میں یہ اندازہ خوش فہمی پر مبنی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ داعش کے پاس بڑی تعداد میں جنگجو موجود ہیں۔ ایک حالیہ امریکی اندازے میں عراق اور شام میں ان کی تعداد چودہ سے اٹھارہ ہزار بتائی گئی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ تناظر میں صورتحال کو بہرحال بہت خوش کن نہیں کہا جاسکتا اور بظاہر داعش کا خطرہ پھر دستک دیتا محسوس ہورہا ہے۔