جدید نیشنلزم، مشترک قومی وسائل اورتحفظ : آخری حصہ
تحریر : صورت خان مری
دی بلوچستان پوسٹ
ضروری نوٹ : بلوچ مفکر و دانشور صورت خان مری کا یہ کالم 14 فروری 2003 کو روزنامہ آساپ میں شائع ہوا تھا ۔
گلوبلائزیشن کی بین الاقوامی سطح پر مقبولیت کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پر مباحث کے علاوہ صرف ۸۹۹۱ء کے دوران ماہرین نے گلوبلائزیشن پرعلمی اور اکیڈمک۲۲۸۲ پیپرز لکھے اورپیش کئے جوآج تمام کے تمام انٹرنیٹ پر موجود ہیں (انٹرنیٹ، خودگلوبلائزیشن کی ایک شکل بھی ہوسکتی ہے) اس کے علاوہ اسی سال۹۸۵ کتابیں لکھی گئیں۔چنانچہ آج ۲۰۰۲ء میں تمام ماہرین کا مندرجہ ذیل نکات پر اتفاق ہے کہ گلوبلائزیشن یا ملٹی نیشنل کاروباری اداروں کا قوم،قومیت اورقومی ریاست کے قیام اورپروان چڑھانے سے براہ راست کوئی سروکارنہیں۔بنیادی طورپرگلوبلائزیشن سرمایہ دارانہ نظام کا بنیادی عنصرہے سرمایہ دارانہ نظام اپنی خاصیت میں بین الاقوامیت،یکسانیت کے برعکس متنوع اورہمہ جہت ہونے کا حامل ہے۔گلوبلائزیشن میں ملٹی نیشنل کمپنیاں منافع کی خاطردوسرے ملکوں اورریاستوں میں کاروبارکرتی ہیں بین الاقوامیت میں ملٹی نیشنل ہونے کاتصور ہی ختم ہوتا ہے اس نظام کوبنیادی اہمیت اوربین الاقوامی مقبولیت سویت یونین اورکمیونزم کی بین الاقوامیت کے انہدام (بقول ماہرین) کے بعد سرمایہ دارانہ نظام کی فتح اور سوشلسٹ اقتصادی نظام کے متبادل کے طورپرمانا گیا جس کی بنیادپرائیویٹ سرمایہ کاری اورمارکیٹ اکانامی اقتصادیات اور مالیات پررکھی گئی ہے۔پرائیویٹ سرمایہ کاری اورمارکیٹ اکانامی یا باالفاظ دیگر گلوبلائزیشن کو یورپ کے علاوہ سوشلسٹ
ممالک خاص کرچین،ویت نام میں بھی قبولیت حاصل ہوچکی ہے ”An other name for capitalism and market economy”In Its core sense that is the expansion of cross border
economy”
ماہرین کاخیال ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اورسرمایہ کاروں خاص کر ملٹی نیشنل کاروباری اداروں کوبین الاقوامیت کسی بھی حالت میں سوٹ نہیں کرتی اور راس نہیں آتی۔چنانچہ تمام ماہرین کا اس پراتفاق ہے کہ گلوبلائزیشن بنیادی طورپرقومی اورملکی اقتصادیات کے نظام میں سرمایہ کوبڑھاوا دینے کے لئے کراس بارڈر تجارت کومربوط بنانے کا عمل ہے۔ یعنی Inter Action Integrationاس میں شک نہیں کہ آج عملی طورپرتمام ترارتکاز اورتوجہ سرمایہ کاری اورتجارت پرہے۔ لیکن گلوبلائزیشن میں سماجی،ثقافتی، سیاسی،صنعتی اورٹیکنالوجی خاص کرکمیونیکیشن سے استفادہ اورتبادلے بھی آتے ہیں۔ چنانچہ گلوبلائزیشن کو سمجھنے کے لئے ایک دیگرویسا ہی ادارہ اقوام متحدہ کی مثال بھی دی جاسکتی ہے۔ ہمارے خیال میں نظریاتی اورکسی حدتک عملی طورپر جس قدر کام قومی حق خودارادیت اورانسانی بنیادی حقوق کے زمرے میں قوم،قومیت اورقومی ریاست کے بارے میں اقوام متحدہ اوراس کے مختلف اداروں نے کیا ہے۔ شاید کسی واحد ادارے نے اس قدرطویل مدت تک اس کام کوجاری نہیں رکھا ہے۔
حصہ اول : جدید نیشنلزم ،مشترک قومی وسائل اور تحفظ – صورت خان مری
اس میں شک نہیں کہ گلوبلائزیشن کے طویل سفرمیں کئی مواقع ایسے آئے جس میں یہ سمجھاگیا کہ قوم،قومیت یا قومی ریاست خاص کر اس تصورسے مربوط قومی اقصادیات یا قومی اقتصادیات کا تحفظProtectionism گلوبلائزیشن کی راہ میں حائل ہیں۔خاص کر ۳۱۹۱ء سے قبل ایمپریلزم اورکالونیلزم کے دوران گلوبلائزیشن اورسرمایے کے پھیلاؤ باالفاظ دیگربرطانوی اوریورپی ممالک کی سرمایے کی لوٹ مار نے اس عمل کوانتہائی تقویت بخشی تھی۔لیکن اس کے فوراً بعد سوشلسٹ اورقومی ریاست کے انقلابات کے دوران دنیا میں امن وامان اورتوڑپھوڑ کی بناء پرسرمایہ کاری اورگوبلائزیشن (عالمگیریت) کے عمل میں رکاوٹیں آئیں۔ کیونکہ قدیم دور سے لے کرخاص کرفریڈشلز نے بلوچستان کے حوالے سے اپنی کتاب خانہ بدوشانہ زندگی اورکالونیلزم۲۷۹۱۔۲۷۸۱ء میں ترقیاتی عمل کے لئے امن وامان کے ماحول کی کیفیت کو تالیفیPacifying قراردیاتھا۔عالمی طورپر یہ عمل ۳۱۹۱ء کے بعدبحران کا شکارہوا توسمجھا جانے لگا کہ ولسن،لینن کے قومی ریاست کے متفقہ تصور عالمگیریت (گلوبلائزیشن) اورسرمایہ کاری کی راہ پر حائل ہے لیکن جنگ عظیم کے بعدکے سالوں میں جب قومی ریاستیں وجودمیں آئیں اوریورپ میں اس تضاد کی شدت کم ہوتی گئی۔سرمایہ کاری اورگلوبلائزیشن کا عمل ایک مرتبہ پھرتیز سے تیزترہوتا گیا یہاں تک کہ سردجنگ کے خاتمے اور سوویت یونین کے انہدام کے سالوں کے بعدجہاں قومی ریاست کے قیام کے بعد تحریک کی شدت یورپ میں کم ہوتی گئی۔اسی انداز میں قومی ریاستوں کے یورپ اورمغرب میں بشمول ایشیائی قومی ریاستوں میں سرمایہ کاری اورگلوبلائزیشن تیزی سے پھیلتی پھولتی رہی اور یہی عمل ایشیائی قومی ریاستوں میں آگے بڑھا۔سرمایہ کاری اورگلوبلائزیشن کے عمل کا قوم،قومیت اور قومی ریاست سے ٹکراؤ کے خیال کوگلوبلائزیشن(عالمگیریت) کے”کھلاڑی“ کے عنوان سے ماہرین کی تحریریں بھی غلط ثابت کرتی ہیں۔گلوبلائزیشن کے ان کھلاڑیوں میں سب سے بڑا گیٹ GATT یا موجودہ ڈبلیو ٹی او یعنی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن ہے جس کے قیام کے ساتھ ہی ۳۲۱ ریاستوں اور ملکوں نے اس پردستخط کئے تھے اور اس کے چارٹرکی بنیاداتفاق رائے کے فیصلوں پرہے۔ ٹریڈ آرگنائزیشن کے قواعد وقوانین کو لے کر بعض ماہرین نے اس ادارے کے حوالے سے یہ رائے قائم کی کہ یہ ادارہ جہاں سرمایہ اورسرمایہ کاری کوبڑھاتا ہے اورملٹی نیشنل کمپنیوں کے کاروبارکو باضابطہ بناتا ہے وہاں باالفاظ دیگریہ قومی اقتصادیات کے تحفظات Protectionism کی اکیسویں صدی کا نعم البدل ہے۔ چنانچہ گلوبلائزیشن قوم،قومیت اورقومی ریاست کو کمزورنہیں بلکہ کاروباراورتجارت کو مربوط بناکرقومی ریاست کوتقویت بخشتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ جدیددور کے ابتدائی سالوں میں بعض بائیں بازوں کے لکھنے والوں نے گلوبلائزیشن کے لفظی معنوں کولے کریہ کوشش کی تھی کہ اس عمل کوبین الاقوامیت کے رنگ میں ڈھالا جاسکے اوریہ ثابت کیا جائے کہ اپنی بین الاقوامی خصوصیات کی حامل اورخاص کرملٹی نیشنل کمپنیوں کے طوفان سے سیاسی،ثقافتی،قومی جمہوری اوردیگرتضادات کا حل جب نکل آئے گا تو بین الاقوامی دنیا میں طبقاتی تضاد خاص کرمحنت کش اور سرمایہ دارکے تضادمیں شدت آسکے گی لیکن تمام ترعلمی اوراکیڈمک(نظری) مباحث جن کا ہم نے اوپرذکرکیا۔اس نظریہ کو ماننے کے لئے تیارنہیں۔البتہ اس بات سے وہ اتفاق کرتے ہیں کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے فیصلے اوردباؤکہیں بھی جمہوری اندازمیں نہیں ہوتے۔ اوراسی طرح اس بات پربھی کافی بحث ہورہی ہے کہ کیا ایسا تونہیں کہ گلوبلائزیشن کا دوسرا نام امریکنائزیشن ہے۔ کیونکہ جس انداز سے دنیا میں امریکی ثقافتی اوردیگراقدارکاکمیونیکیشن(ابلاغ) کے ذریعے پھیلاؤ ہورہا ہے۔اس سے امریکی اثرات سے بچاؤممکن نہیں۔ اس طرح سوویت یونین کے انہدام کے بعدامریکہ کا واحد سپرطاقت اور دہشت گردی کے خلاف اتحاد کے حوالے سے بھی دنیا پرچھائے جانے کے خدشے عام ہیں۔ خاص کر ستمبر ۱۰۰۲ء
کے نیویارک کے واقعہ کے بعد۔
چنانچہ ستمبر ۱۰۰۲ء کے بعدکے واقعات کے تجزیہ میں مندرجہ ذیل تین حالتوں کواہمیت کا حامل گردانا جارہاہے۔
۱۔ امریکہ کی دنیا میں واحدسپرطاقت کی حیثیت مسلم ہے۔چنانچہ آج تمام فیصلے اسی کی رضا اور منظوری سے ہی ہونگے۔لیکن اس کے ساتھ گزشتہ سال دوکے دوران خاص کر ۲۰۰۲ء کے آخری مہینوں میں امریکی سپرطاقت کولگام دینے کے لئے یورپین یونین،روس کوآگے بڑھانے اورروس،چین،بھارت اوردیگرعلاقائی طاقتوں کی کوششیں بھی عیاں سے عیاں تر ہورہی ہیں جس سے یہ امکان پیداہوتا ہے کہ امریکہ کی موجودہ سپر پاور حالت بہت زیادہ دیرپا نہیں۔
حصہ دوئم : جدید نیشنلزم، مشترک قومی وسائل اورتحفظ
۲۔ طاقت کااستعمال۔ستمبر ۱۰۰۲ء کے بعدطاقت کے استعمال کی دھمکیوں سے یہ خطرہ پیداہوگیاتھا کہ ایشیاء اورافریقہ میں قوم،قومیت اورقومی ریاست کی تحریکیں خوفزدہ ہوکریاتو پس منظرمیں چلی جائیں گی یا ان کا وجود ہی ختم ہوگا۔ لیکن دسمبر ۲۰۰۲ء میں ایسا لگتا ہے کہ امریکہ اوراس کے اتحادی جنہیں بادی النظرمیں ملٹی نیشنل کی حمایت حاصل ہے یہ نہ صرف افغانستان بلکہ خودیورپی ممالک کی قومی ریاستوں ایران اورعرب ممالک میں چیلنج سے دوچارہیں۔
۳۔ سرمایہ کاری اورگلوبلائزیشن(عالمگیریت) کے عمل کی فطری تیز ی کوجس اندازمیں ستمبر ۱۰۰۲ء کے واقعہ نے تیز سے تیز ترکیا۔اس کو منطقی رفتار سے کئی گنا تیز اورغیرفطری گرداناگیا چنانچہ امریکہ اوراتحادیہ کا افغانستان پرحملہ عراق اور دیگروسائل کے حامل ممالک کودی گئی دھمکیوں کو وسائل کا استحصال کہا اورسمجھاگیا۔چنانچہ ایشیاء اورافریقہ کے ممالک میں قومی وسائل اوراس کے تحفظ کے بارے میں حساسیت اپنی انتہاؤں تک پہنچ چکی ہے۔ایسے لگتا ہے کہ قوم،قومیت اورقومی ریاست کا پورا تصور دسمبر ۲۰۰۲ء کے ماہ وسالوں میں قومی وسائل کے شعوراوراس کے تحفظ کے احساس میں سمٹ چکا ہے۔ یہ کہنا البتہ قبل از وقت ہے کہ قومی وسائل کے استحصال کے لئے طاقت کا استعمال کہاں تک کامیاب ہوسکتا ہے؟ البتہ اب تک کی تاریخ میں سرمایہ کاری اورگلوبلائزیشن کے لئے Pacifying کا تصوربنیادی حقیقت رہا اس تصور کو ایشیاء،افریقہ اورتیسری دنیا میں قوم،قومیت یا قومی ریاست کے ڈھانچے میں ڈھال کرجنگ عظیم،سوویت یونین کے انہدام کے بعد قومی ریاستوں کے وجودتک آنے اوریورپی قومی ریاست کے تصور کے تجربے میں ڈھالا جائے گا؟ یعنی قومی ریاست میں گلوبلائزیشن پرورش پائے گی۔یا گلوبلائزیشن تیسری ہزاریہ یعنی اکیسویں صدی میں ایک نیا راستہ نکالے گا؟پیش گوئی غالباً آسان نہیں۔البتہ ایشیاء افریقہ اورتیسری دنیا میں آج جس چیلنج سے گلوبلائزیشن دوچارہے۔غالباً اس سے قبل اپنی چارسوسالہ تاریخ میں کبھی دوچارنہیں رہا ہوگا۔ ایک طرف یورپ اورمغرب کا مہذب معاشرہ جہاں قومی ریاستیں قائم ہیں اورگلوبلائزیشن،عالمی کاروباری اداروں کوانتہائی سازگارماحول میسرہے دوسری طرف قومی ریاستوں کی جدوجہداوروسائل کے بارے میں انتہائی حساس تیسری دنیا کے پس ماندہ ممالک جومہذب معاشرہ اورسول سوسائٹی سے ناآشنا ریاستیں ہیں۔قومی ریاستی سرحدوں کی تشکیل نو،پسماندگی اورسول سوسائٹی کے فقدان جمہوری تحریکوں نے گلوبلائزیشن اورعالمی تجارتی اداروں کے لئے انتہائی ناموافق حالات پیداکئے ہیں ایسے میں یقیناً متعلقہ قوتوں، سپرپاورامریکہ،یورپ اورعالمی تجارتی اداروں کواپنے راستے متعین کرنے ہیں یقیناً وہ راستہPacification ہی کا ہوگا جس کے بغیر قدم بڑھانا ممکن نہیں۔ اورPacification اپنی اصل میں قوم،قومیت اورقومی ریاست کے لئے مثبت اوردوست ہے۔