تاسف یہ نہیں، ہم نہیں لکھتے – احمد علی کورار

96

تاسف یہ نہیں، ہم نہیں لکھتے

تحریر: احمد علی کورار

دی بلوچستان پوسٹ

جتنے بھی ارباب قلم جنہیں ہم مضمون نگار، کالم نویس، تجزیہ نگار یا سادہ زبان میں انہیں مصنف کہہ لیں جو مختلف موضوعات کو مضمون یا کالم کی صورت میں اختصار سے پیش کرتے ہیں، وہ کوئی ایک آدھ کتاب پڑھ کر یا رات بھر خواب خرگوش کے مزے لے کر صبح کو صفحہ قرطاس کو سیاہ نہیں کرتے۔ کوئی راتوں رات لکھاری نہیں بنتا، اس میں جہد مسلسل کار فرما ہوتی ہے۔

یاد رکھیں لکھنے کے لیے پڑھنا شرط اول ہے، ایسا ممکن ہی نہیں کہ آپ پڑھے بغیر کچھ لکھ سکیں۔ اور اس سے بھی مفر ممکن نہیں کہ پڑھنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے، جو بد قسمتی سے ہمارے پاس نہیں۔ پڑھنے کے لیے لیت ولعل سے کام نہیں لیا جا سکتا۔

ہم یہ کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں کہ ٹیکنالوجی نے کتابوں سے ہمیں دور کر دیا ہے اور یہ بھی کہتے نہیں تھکتے کہ اس جدید دور میں اتنی ضخیم کتابیں کون پڑھے جبکہ سب کچھ انٹرنیٹ پر موجود ہے، ہمیں سب کا حل دستیاب ہے۔ کیونکر ہم کتابوں سے وابستگی رکھیں۔

لیکن ہمہ وقت ایک بات ذہن میں کٹھکتی رہتی ہے کہ اگر ایسی بات ہے تو پھر یورپ تو ہم سے جدید ٹیکنالوجی میں کافی آگے ہے وہاں جو چیز تیار ہو کے استعمال ہوتی ہے، ہمارے ہاں تو اس کا تصور بھی نہیں، دور دور تک نام و نشاں تک نہیں ہوتا۔ لیکن اس کے باوجود وہاں دھڑا دھڑ کتابیں شائع ہو رہی ہیں۔ ایک آکسفرڈ پریس کی مثال لے لیتے ہیں، اب تو آکسفرڈ اردو کی کتابیں بھی شائع کر رہا ہے۔

منٹو کی سلیکشن ہو یا غلام عباس کے افسانے، اس کے علاوہ اردو کی اور بہت سی کتب یہ سب بھی آکسفرڈ نے اپنے ذمے لے لی ہیں۔

جب ہمارے ہاں پڑھنے کا رجحان ہی نہ ہونے کا برابر ہوگا تو کتابیں کیونکر چھپیں گی۔ ہم اس ماحول میں جی رہے ہیں، جہاں اکثر یہ بھی پوچھا جاتاہے کون سی کتابیں پڑھنی چاہیئے، ظا ہر سی بات جب پڑھنے سے ربط ہی نہیں ہوگا، تو ایسا سوال تو بنتا ہے۔

تاریخ، فلسفہ تو اپنی جگہ، اب تو اہل علم یہ کہنے پر مجبور ہیں کوئی بھی کتاب پڑھیں، پڑھنے کی عادت ڈالیں۔ چاہے اردو ڈائجسٹ ہی پڑھ لیں۔

ہمارے ہاں ایک اور مسئلہ بھی ہے کہ نوجوانوں کی اکثریت ضخیم کتابیں پڑھنے سے کتراتی ہیں، انھیں تو اتنی موٹی کتابیں دیکھ کر بخار ہو جاتا ہے، وہ ہمیشہ ایسی کتاب کو زیادہ پسند کرتے ہیں جو کم صفحات پر لکھی گئی ہوں اور اختصار سے لکھی گئی ہو۔

اس چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے میں یہاں مایہ ناز مصنف Will Durant کی دو کتابوں کے نام بتاتا ہوں جو بڑے اختصار سے لکھی ہیں Pleasure of philosophy بڑی حیرت انگیز کتاب ہے، بڑے اختصار سے مغربی فلاسفی کی Summary بیان کی گئی ہے، اسے پڑھنے کے بعد فلسفے کا جو Concept ہے واضح ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کی ایک دوسری کتاب ہے The greatest minds and ideas of all time بڑے اختصار سے لکھی گئی خوبصورت کتاب ہے، جو سو یا سوا سو صفحات پر لکھی گئی ہے۔ یہ واقعی میں ایک زندگی بدلنے والی کتاب ہے، نوجوان لکھاریوں کو اسے ضرور پڑھنا چاہیے۔

ول ڈیورنٹ کے علاوہ اسٹیفن ہاکنگ کی ایک حیرت انگیز کتاب ہے جو بڑے اختصار سے لکھی گئی ہے، ایک چھوٹی سی کتاب ہے اس کی خاصیت یہ ہے یہ دنیا کے مشکل مسائل کو ایڈریس کرتی ہے۔ جو پڑھنے کے قابل ہے۔

یوول نوہ ہراری کی ایک شاندار کتاب ہے Sapians The history of humankind بڑی مربوط انداز سے لکھی گئی ہے.اب تو یہ اردو میں بھی دستیاب ہے۔ جس میں انسانی ارتقا پر بات کی گئی ہے۔

تایخ کے حوالے سے اگر ہمیں کتب پڑھنی ہوں تو ڈاکٹر مبارک علی پڑھیں، اختصار سے لکھی گئی ہیں۔

اسکے علاوہ اگر ہم اردو کتابوں کا انتخاب کریں تو یوسفی صاحب کی آب گم بہترین کتاب ہے۔ اردو ادب کی ایک شاہکار ہے، آپ اس میں مزاح ڈھونڈ لیں، اردو کی چاشنی ہو یا کردار نگاری ہو جاندار تحریر ہے۔

اس کے علاوہ اردو میں قرة العین کا ناول آخری شب کے ہمسفر بڑا شاندار انتخاب ہے، اسے جتنی بار پڑھا جائے اتنا ہی مزہ دوبالا ہوتا ہے۔ اس کی بڑی Repeat value ہے۔

یہ فہرست طویل ہے لیکن درج بالا کتابوں کو پڑھنے کے بعد آپ میں پڑھنے کی جستجو پیدا ہوگی۔ جب پڑھنا آپ کی سرشت کا حصہ بن جائے گا پھر پڑھنے اور لکھنے سے آپ کو کوئی نہیں روک سکتا۔ تاسف یہ نہیں کہ ہم نہیں لکھتے،دکھ یہ ہے کہ ہم پڑھتے نہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔