بلوچ طلبہ پر دھاوہ
دی بلوچستان پوسٹ اداریہ
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے مورخہ 15 مئی کو بلوچ لاپتہ افراد کے حوالے سے میڈیا میں نئے اعداد و شمار جاری کیئے۔
ایک ٹویٹ میں انہوں نے بتایا کہ گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران بلوچستان کے مختلف علاقوں سے کم از کم 11 افراد گرفتار کرکے لاپتہ کیئے گئے ہیں۔ انہوں نے ان جبری گمشدگیوں کا الزام پاکستان کے طاقتور خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلیجنس ( آئی آئس آئی) پر عائد کی۔
ماما قدیر بلوچ کے جاری کردہ اعدادوشمار کے بعد ٹی بی پی نے جمعے کے دن تک مزید 11 افراد کی جبری گمشدگیوں کی خبر رپورٹ کی۔ جس سے مجموعی تعداد محض اس ہفتے خطرناک حد تک 22 افراد تک پہنچتی ہے۔ گذشتہ ہفتے اوسطاً ہر روز 3 افراد بلوچستان سے گرفتار کرکے لاپتہ کیئے گئے ہیں۔
ان جبری گمشدگیوں میں واضح مماثلت ان تمام افراد کی عمر ہے، یہ سب نوجوان طالبعلم ہیں، اور اس سے بھی زیادہ پریشان کن امر یہ ہے کہ مغویوں میں سے کم از کم 3 یونیورسٹی میں بیچلر اور ایم فل کے طالبعلم ہیں۔
12 مئی کو بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان کے طالبعلم ناصر بلوچ اور لوامز یونیورسٹی اوتھل کے طالبعلم جہانزیب بلوچ کو انکے آبائی ضلع کیچ سے مبینہ طور پر قانونی نافذ کرنے والے اداروں نے اغواء کرکے لاپتہ کردیا۔
ایک دن بعد علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد میں ایم فل کے طالبعلم ثناء بلوچ کو مسلح افراد نے اسلحہ کے زور پر اغواء کرکے اپنے ساتھ لے گئے۔ انکے اہلخانہ نے اغواء کا الزام پاکستانی فورسز پر عائد کی ہے۔
ثناء بلوچ کے جبری گمشدگی نے انکے عزیز و اقارب، بلوچ طلبہ اور بلوچستان کے ادبی حلقوں میں غم و غصے کی ایک لہر پیدا کی ہے۔ ثناء بلوچ اپنے آبائی علاقے خاران میں ایک ادبی تنظیم چلاتے تھے۔ ” نصیر کبدانی لبزانکی دیوان” کے نام سے جانا جانے والا ادبی تنظیم بلوچی زبان کی ترقی و ترویج کیلئے متحرک تھا۔
انکے جبری گمشدگی کی شام ہی بلوچ طلبہ میں غم و غصہ دیکھا جاسکتا تھا، جو اپنے احتجاج کا اظہار سماجی رابطوں کے ویب سائٹ ٹوئٹر پر کررہے تھے، جس میں بلوچ طلبہ پر ریاستی اداروں کی جانب سے کریک ڈاؤن پر تنقید کی جارہی تھی۔
پاکستان میں آدھی رات تک #SaveSanaBaloch کے نام سے ہیش ٹیگ ٹام ٹاپ ٹرینڈ کرتا رہا۔
بلوچستان بھر میں بلوچ طلبہ کے جبری گمشدگیوں میں اضافے پر انسانی حقوق کے اداروں کی مکمل خاموشی، انکی غیر ذمہ داری اور بے حسی کا اظہار ہے۔ ایک ہفتے کے اندر 22 افراد لاپتہ کیئے گئے ہیں، لیکن اب تک کسی بھی علاقائی یا بین الاقوامی تنظیم کی جانب سے مذمت تک نہیں کی گئی ہے۔