بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس عبدالحمید بلوچ پر مشتمل بنچ نے نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) میں مشیر خزانہ کی رکنیت اور اس میں جاوید جبار کو بلوچستان کی جانب سے رکن مقرر کرنے کے خلاف دائر آئینی درخواست میں اٹارنی جنرل، چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے ان سے اس سلسلے میں اگلی سماعت پر وضاحت طلب کرلی ہے۔
جمعہ کے روز درخواست گزاران کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ، میر عطا اللہ لانگو ایڈووکیٹ، نجم الدین مینگل ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر آئینی درخواست میں وفاق، چاروں صوبوں کے وزارت خزانہ کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ این ایف سی ایک آئینی فورم ہے جس کے مشیر خزانہ کی رکنیت غیر آئینی ہے۔ جاوید جبار ایک لکھاری ہے مگر اس کی تقرری بلوچستان کی جانب سے این ایف سی میں بطور رکن کی گئی ہے جو تیکنیکی عہدہ ہے جاوید جبار کو تیکنیکی عہدہ سونپنا صحیح نہیں اس کی تقرری آئین و قانون کے منافی ہے۔
انہوں نے موقف اپنایا کہ عدالت عالیہ نیشنل فنانس کمیشن میں مشیر خزانہ کی رکنیت اور جاوید جبار کی بلوچستان کی جانب سے بطوررکن تقرری کو کالعدم قرار دے جس پر دو رکنی عدالتی بنچ نے اٹارنی جنرل، چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے اگلی سماعت پر طلب کرتے ہوئے اس سلسلے میں وضاحت طلب کی ہے۔
درخواست گزاران کی جانب سے دائر آئینی درخواست نمبر 414/2020 کی سماعت 21 مئی کو ہوگی۔
دریں اثنا حکومت بلوچستان کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے کہا ہے کہ جاوید جبار کا شمار ملک کے باصلاحیت اور ماہر افراد میں ہوتا ہے ان کے تجربے اور صلاحیتوں کو مد نظر رکھ کر حکومت بلوچستان نے ان کی تقرری کی سفارش کی تھی۔
غیرملکی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے حکومت بلوچستان کے ترجمان لیاقت شاہوانی کا کہنا تھا کہ جس طرح جاوید جبار نے دوسرے شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے اس کی بنیاد پر وہ دسویں این ایف سی ایوارڈ کے لیے بلوچستان کے کیس کی بھرپور انداز سے وکالت کریں گے جس کے نتیجے میں بلوچستان کو زیادہ سے زیادہ وسائل ملیں گے۔
جاوید جبار نے خود پر ہونے والی تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ جو شخص جس شہر میں رہتا ہے اس جگہ سے اس کا ایک خاص رشتہ ضرور ہوتا ہے لیکن ہم ایک ہی مملکت کے شہری ہیں۔ اگر آپ پاکستانی ہیں تو آپ کو پاکستان کے تمام حصوں کے لوگوں کی خدمت کرنی پڑے گی۔
ان کے بقول بلوچستان سے ان کا گذشتہ دو تین دہائیوں سے کسی نہ کسی حیثیت میں تعلق رہا ہے۔ ’میں نے نہ صرف بلوچستان پر متعدد دستاویزی فلمیں بنائی ہیں بلکہ متعدد ایسی غیر سرکاری اور رضاکار تنظیموں سے وابستہ رہا ہوں جنھوں نے بلوچستان میں مختلف شعبوں میں کام کیا ہے۔‘
دوسری جانب اس تقرری کے ایک بڑے ناقد اور بلوچستان سے منتخب رکن قومی اسمبلی محمد اسلم بھوتانی کے مطابق نہ تو جاوید جبار کا تعلق بلوچستان سے ہے اور نہ ہی وہ ماہرِ معاشیات ہیں۔
اگر بلوچستان پر کوئی دستاویزی فلم بنانی ہو تو اُس کام کے لیے شاید جاوید جبار سے کوئی بہتر شخص نہ ہو لیکن جہاں تک معیشت اور این ایف سی کی بات ہے تو جاوید جبار کو اس کا تجربہ نہیں ہے۔
انھوں نے سوال اٹھایا کہ بلوچستان کی تقریباً ایک کروڑ 30 لاکھ آبادی میں سے ’کوئی ایک بھی ایسا شخص نہیں تھا جو کہ بلوچستان کی این ایف سی ایوارڈ کمیشن میں نمائندگی کرسکے؟‘
بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی سمیت حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی دیگر جماعتوں نے بھی جاوید جبار کی تقرری کی مخالفت کی ہے۔
کوئٹہ میں بلوچستان اسمبلی میں حزب اختلاف کے اراکین کی مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران پشتونخوا میپ کے رکن بلوچستان اسمبلی نصراللہ زیر نے کہا کہ جاوید جبارکو ہمارے صوبے کے بارے میں کچھ پتا نہیں کیونکہ ان کا تعلق کراچی سے ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ غیر آئینی طور پر کسی اورصوبے سے ہمارے صوبے کےلیے نمائندہ مقرر کیا گیا۔
نصراللہ زیر نے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کہ جاوید جبار کی تقرری کو واپس لے کر بلوچستان سے تعلق رکھنے والے کسی ماہر کو این ایف سی کے لیے نامزد کیا جائے۔