بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل (اسلام آباد) کے ترجمان نے کہا کورونا عالمی وباء نے جہاں انسانی زندگی میں متعدد مشکلات پیدا کردئیے ہیں وہی ریاستوں کے انسانی زندگیوں کے آسان بنانے کے لیے کئے گئے دعوؤں کی حقیقت کو بھی آشکارکردیا، اس عالمی وباء میں نہ صرف انسانی زندگی کو خطرات لاحق ہیں بلکہ معیشت ، تعلیم، سماجی زندگی پر بھی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں جبکہ خاص کر تعلیم کے حوالے سے جو مشکلات و مسائل سامنے آرہے ہیں وہ ریاست پر سوالیہ نشان ہیں، کورونا کے بعد تعلیمی مسائل میں سب سے اہم چیز جس پر اس ریاست کو انتہائی غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے وہ اس ملک کی تعلیمی نظام کی دو حصوں میں تقسیم کی ہے، ایک تعلیمی نظام اشرافیہ طبقہ کے لئے ہے جہاں طلبہ کو کسی بھی قسم کے مشکلات کا سامنا نہیں ہے دوسری نظام پسے ہوئے طبقہ کے لئے جہاں طلبا و طالبات کو کسی بھی قسم کی سہولیات میسر نہیں ہے اور وہ ہر قسم کے مشکلات کا شکار ہیں۔
ترجمان نے کہا بلوچستان کے طلبہ پسے ہوئے طبقات میں شامل ہیں جہاں ان کو اس جدید دور میں انٹرنیٹ جیسی سہولیات میسر نہیں ہے اور دوسری جانب ریاست اور تعلیمی اداروں کے انتظامیہ نے صرف اشرافیہ طبقے کے طلبہ کو مدنظر رکھ اپنے تعلیمی منصوبے کر رہے ہیں جیسا کہ حالیہ وباء کے بعد حکومت اور انتظامیہ نے تعلیمی نظام کو آئن لائن کرنے کا منصوبہ بنایا جس کے بعد بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے طلبہ نے اس منصوبے کی شدید مخالفت کی تھی کیونکہ بلوچستان، گلگت بلتستان اور پختونخواہ کے بیشتر علاقوں میں انٹرنیٹ سروس بند کردیے گئے ہیں، طلبہ کی شدید احتجاج کے بعد حکومت اور تعلیمی اداروں نے اپنی فیصلے وقتی طور پر واپس لیے تھے اب دوبارہ شنید میں آرہا ہے بلکہ کچھ یونیورسٹیوں نے باقاعدہ یکم جون سے آئن لائن کلاسز شروع کرنے کا نوٹیفیکشن جاری کردیا ہے جو انتہائی افسوسناک ہے جبکہ ریاست اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کی پسے ہوئے طبقات کے طلبہ کے لیے ان کی غیر سنجیدگی کو بھی عیاں کررہا ہے، ریاست کے اس فیصلے سے یہ امر واضح ہوچکا ہے کہ ریاست کی تعلیمی نظام اور منصوبے صرف اس ملک کے اشرافیہ طبقہ کے لیے ہے۔
ترجمان نے کہا ہم بلوچستان کے طلبہ قطعاً جدید ٹیکنالوجی یا آئن لائن کلاسز کے خلاف نہیں ہے بلکہ یہ ایک حوصلہ افزاء عمل ہوگا جب ہم اس وباء کے دوران بھی اپنے تعلیمی سلسلے کا جاری رکھیں، لیکن ہمارے طلبہ کے پاس انٹرنیٹ جیسی بنیادی سہولت نہیں ہے تو ہم کہاں سے تعلیم حاصل کریں؟ اگر ریاست تعلیمی نظام کو آن لائن کرنے میں سنجیدہ ہے تو سب سے پہلے بلوچستان، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخواہ کے علاقوں میں انٹرنیٹ سروس کو بحال کریں، بلوچستان کے دور افتادہ علاقے یا دیہات و پہاڑی علاقے تو دور کی بات کوئٹہ کے بعد بلوچستان کے سب سے بڑے شہر یعنی قلات، تربت، پنجگور، آواران، سوراب اور کوہلو جیسے علاقوں میں بھی انٹرنیٹ کی سہولیات نہیں ہے تو ہر ذی شعور انسان اندازہ لگاسکتا ہے کہ بلوچستان میں کیا صورتحال ہوگی، ریاست اور تعلیمی اداروں کے انتظامیہ کا یہ کہنا کہ جن طلبہ کے پاس انٹرنیٹ کے سہولیات موجود نہیں ہے وہ اپنے سمسٹر کو فریز کریں تو اس امر کا مطلب واضح ہے کہ پورے بلوچستان، خیبر پختونخواہ اور گلگت بلتستان کے ہزاروں طلبہ کو اپنے سمسٹر فریز کرانے ہونگے جو انتہائی تشویشناک صورتحال ہے،جہاں تک بات کورونا جیسے وباء کی ہے تو اب تک امریکہ جیسا سپر پاور بھی یہ اندازہ لگانے میں ناکام ہے کہ یہ وبا ء کب ختم ہوگا، ہم بلوچستان کے طلبہ اس ریاست سے سوال کرتے ہیں اگر یہ وباء خدانخواستہ آنے والے سال تک جاری رہا تو آپ کے اس منصوبے کے مطابق ہمیں اپنے چار سمسٹر فریز کرانے ہونگے؟ اگر آپ یہ ریاست کا تعلیمی منصوبہ ہے تو ریاست ہمیں واضح کردیں کہ یہ یونیورسٹیاں اور تعلیمی منصوبے بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے طلبہ کے لیے نہیں ہے، ہم ریاست اور تعلیمی اداروں کے انتظامیہ سے اپیل کرتے ہیں کہ اپنے اس تعلیمی منصوبے پر نظر ثانی کریں اورہماری تعلیمی کیرئیر کو برباد ہونے سے بچائے۔
بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل ( اسلام آباد ) اس موجودہ تعلیمی منصوبے کے خلاف تمام فورم پر اپنی آواز بلند کرئے گا اور سوشل میڈیا میں اس کے خلاف مہم بھی چلائی جائے گی۔