بقاء باہمی کا سوال اور بابا مری کا موقف
تحریر: شہیک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بی این ایم کے مرکزی رہنما حمل حیدر بلوچ نے بلوچ نیشنلزم کے بانی رہنما بابا مری کو فاشزم سے جوڑتے ہوئے ان کے موقف کو اپنے پیرائے میں بیان کرتے ہوئے اس کے پس منظر کو یا تو لاشعوری طور پر نظر انداز کیا یا پھر قصداً وہ ایسا کرگئے۔
بابا مری کے حوالے سے فاشزم بابت ہمارے دوست نے اس بات کو چنا کہ ایک انٹرویو میں بابا مری نے کہا تھا”سور کے ساتھ بقاء باہمی ہوسکتی ہے لیکن پنجابی کیساتھ نہیں۔”
صحافی کے سوال کے جواب میں اس بات کو سطحی طور پر لینے کی بجائے اس کا مکمل تاریخی پس منظر ہے۔ بابا مری حالانکہ اشتراکی نظریات کے ساتھ زیادہ لگائو رکھتے تھے اور انسانیت دوستی پر گہرا یقین رکھتے تھے۔
جہاں تک ایڈولف ہٹلر کی بات ہے وہ جرمن شائونزم کا شکار تھے لیکن بابا مری نے کبھی بھی بلوچ قوم کو دیگر اقوام سے برتر ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی۔ نا ہی انہوں نے کوئی ایسا غیر انسانی دعویٰ کیا۔ وہ اکثر واضح کرتے تھے کہ بلوچ ایک قوم ہے پسماندہ ضرور ہے، شعوری پختگی کی کمی ہے لیکن یہ بھی نہیں کہ ہم کسی اور کو برتر تسلیم کریں، ہم باقی انسانوں کے برابر ہیں البتہ ترقی کی اس انسانی سطح تک پہنچنے میں ہمیں وقت لگے گا۔ اپنے اسٹڈی سرکلز میں وہ “انسانی عزت نفس” کا اکثر زکر کرتے اور اکثر دہراتے کہ ہمیں دوسروں کی آزادی کا احترام کرنا چاہیے۔
وہ کسی قوم کو زیردست لانے کا نہیں کہتے تھے بلکہ بلوچ کو ایک آزاد قوم کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے تھے۔
پنجاب کیساتھ بقاء باہمی کا سوال آج کا نہیں نا ہی یہ بابا مری کا ذہنی اختراع تھا بلکہ جب پنجاب کیساتھ الحاق کا سوال سامنے رکھا گیا تب بلوچ اسے تاریخی طور پر مسترد کرچکا تھا لیکن بلوچ کے اس فیصلہ کو تسلیم کرنے کی بجائے بندوق کے زور پر بلوچ گلزمین کو کالونائز کیا گیا اور اس کے بعد بلوچ قوم کیساتھ آج تک جو سلوک روارکھا گیا ہے اگر اس کو دیکھتے ہوئے کوئی بابا مری کے موقف کو دیکھے تو شاید انہوں نے کچھ غلط نہیں کہا۔
بنگال بقاء باہمی کے لیے تیار تھا لیکن بنگال کیساتھ جس طرح فاشزم کا مظاہرہ کیا گیا اس تناظر میں کیا بابا مری بقاء باہمی کے حق میں ہوتے؟
طارق علی ایک مستند دانشور لکھاری ہیں جو اپنی کتاب “پرزے ہوئے پیماں کتنے” میں بڑی وضاحت سے لکھتے ہیں کہ جب میں بنگال میں ان کو کہتا کہ آپ ان سے الگ ہونے کے لیے جدوجہد کریں نہیں تو یہ آپ کو بخشنے والے نہیں، طارق علی لکھتے ہیں کہ میری ان باتوں کے جواب میں شیخ مجیب الرحمٰن مجھے قدرے حیرت سے دیکھتا رہا۔۔
اور آخر میں وہی ہوا۔۔۔ بنگال کے۔ بقاء باہمی کا نتیجہ ایک
بڑی نسل کشی کی صورت میں سب کے سامنے ہے۔
سنگت حمل حیدر سے لے کر تمام بلوچ سیاسی و مزاحمتی اکابرین سے زیادہ قریب سے پاکستان کے پارلیمانی نظام کو بابامری دیکھ چکے تھے، انہوں نے ایک انتہائی راستہ اس لیے چنا کہ باقی تمام راستوں کا انجام وہ دیکھ چکے تھے۔
وہ اس بات کا شعوری ادراک رکھتے تھے کہ پنجاب کیساتھ بقاء باہمی صرف اور صرف غلامی کی صورت میں ہی ہوسکتی ہے کیونکہ پاکستان کوئی کنفیڈریشن نہیں بلکہ ایک تھیوکریٹک ریاست ہے جس میں چھوٹی قومیتوں کے لیے غلامی سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔
حمل حیدر مزید وضاحت کرتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں پنجابی آبادکاروں پر حملے شروع ہوئے اور وہ ناظمہ طالب کا حوالے دیتے ہیں۔
یہاں وہ واقعات کو ڈالیوئٹ کررہے ہیں۔ کیونکہ ناظمہ طالب کے واقعہ کی وضاحت قومی تنظیم کرچکی ہے۔ دوسری وضاحت کے حوالے سے سارترے کی مثال یہاں پیش کرونگا جس نے ظالم کے قوم سے تعلق رکھنے کے باوجود یہاں تک کہا تھا کہ “اگر کوئی الجیریائی کسی فرانسیسی باشندے کو قتل کرتا ہے تو میں اسے مجرم قرار نہیں دے سکتا کیونکہ جو ظلم الجیریائی باشندے پر ہورہا ہے یہ اس کا مزاحمتی حق ہے۔”
پھر سارترے آگے چل کر یہ وضاحت بھی کرتا ہے کہ
”مجھے ان مظلوموں سے نفرت ہے جو ظالم سے ہمدردی رکھتے ہیں۔”
یہاں بلوچ جہد کے ہزاروں مسخ شدہ لاشوں سے لے کر ہزاروں اغواء شدہ سیاسی کارکنان کو فراموش کرنا اور صرف ایک ناظمہ طالب کی مثال دینا بلوچ جدوجہد آزادی کے حوالے سے کمزور موقف اور ظالم کے بیانیہ کو سپورٹ فراہم کرنے کے مترادف ہے۔
یہ بلوچ قوم کی عالمی سطح پر نمائندگی کرنے والے ایک سیاسی کارکن کی ذہنیت ہے جو صباء دشتیاری سے لے کر نذیر مری صاحب جیسے معلموں کے قتل کی بجائے ایک نوآبادکار انفارمر کے انجام پر دلگرفتہ ہورہے ہیں۔
یہاں قابل غور امر یہ ہے کہ حمل حیدر بلوچ قوم کی نمائندگی کرنے کی بجائے عالمی طاقتوں کو خوش کرنے کے لیے ریاستی بیانیہ اپناتے ہوئے بلوچ قومی جدوجہد آزادی کے خلاف فاشزم جیسے الفاظ استعمال کررہے ہیں۔
وہ دنیا کو بلوچ کے اوپر ہونے والے مظالم سے آگاہی فراہم کرنے کی بجائے بلوچ کے کیس کو کمزور کرنے کا باقاعدہ جواز فراہم کررہے ہیں اور اسے اپنی ذاتی رائے سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ جب آپ نیشنلزم کو فاشزم کہہ گئے تو باقی رہ ہی کیا جاتا ہے؟
حالانکہ یہ بات بھی قابل غور رہے کہ جتنا نقصان بلوچ ڈاسپورا کی نالائقی و کم فہمی کے باعث بلوچ قومی جدوجہد کو پہنچا ہے اس کا اعتراف کرنے کی بجائے بلوچ لیڈران اپنے اپنے ذاتی وضاحتوں تک مطمئن ہیں۔۔۔ کوئی اپنی ناکامی چارٹر میں چپا دیتا ہے، کوئی بلوچ گلزمین پر کالونائزیشن کی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کوئی بابا مری کے اصولی موقف کو اپنے ذاتی رائے کامیک اپ کرکے اسے فاشزم سے جوڑنے لگتا ہے لیکن اس دوران جو چیز فراموش کردی جاتی ہے وہ بلوچ قوم کی جدوجہد ہے۔
یہ بلوچ نیشنلزم سے انحراف کے مترادف ہے کیونکہ بابا مری کا بقاء باہمی پر اصولی موقف وقت کیساتھ مزید واضح ہوتا جارہا ہے اور آج وقت کیساتھ قابض ریاست کا رویہ واضح طور پر بتا رہا ہے کہ بلوچ کے لیے اس ریاست میں غلامی کے سوا کچھ بھی نہیں اور بابا مری کا نیشنلزم ہی بلوچ کے نجات کا واحد راستہ ہے۔
بلوچ قومی جدوجہد آزادی انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے جدوجہد کررہی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔