بدلے گی سوچ، بدلے گا سریاب – نعیم قذافی

129

بدلے گی سوچ، بدلے گا سریاب

تحریر: نعیم قذافی

دی بلوچستان پوسٹ

لاٸیبریریاں تشنہ علم کی تکمیل کا واحد زریعہ ہیں، جو ایک سازگار اور شعور یافتہ معاشرے کی تشکیل نو میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں. سازگار اور شعور یافتہ معاشرے کے قیام کے لیئے لاٸیبریروں کا قیام انتہاٸی ناگزیر ہے. علم مہذب اقوام کی اور لاٸیبریریاں زندہ معاشرے کی پہچان ہیں. جدید انٹرنیٹ اور دیگر ساٸنسی ترقی کے باوجود کتاب کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں کیونکہ کتاب انسان کا بہترین دوست اور رہنما ہوتا ہے۔ جن اقوام نے کتاب کی قدر کی اور اس کی اہمیت سے استفادہ حاصل کرنے کے لیئے جدوجد کی۔ آج وہ اقوام جو آسمان چھونے جا رہی ہیں۔ دنیا ان کو قدر اور عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور جن اقوام نے ان کی اہمیت سے انکار کیا، آج وہ اپنے زوال کے تماشاٸی ہیں. لاٸیبریری کسی علمی خزانے سے کم نہیں ہے، یہاں ہمارے طلبإء اور طالبات کو مطالعہ کرنے کے لیے ایک سازگار اور علمی ماحول ملتا ہے۔

چند سال قبل تک سریاب ایک ایسے مقام کے طور پر جانا جاتا تھا، جو خاندانی، عام باتوں کی بنیاد پر ہاتھ پائی اور لڑائیوں کے لئے مشہور تھا اور ہر دن وہاں کوئی نہ کوئی جھگڑے کی خبر لوگوں کو سنائی دیتی تھی۔ لیکن اب سریاب کے لوگ بھی وقت کے تقاضوں کے ساتھ خود کو تبدیل کررہے ہیں اور اب آپ کو وہاں کے لوگوں کی عادتوں میں بہت سی مثبت تبدیلیاں نظر آئینگی۔ اگر میں اس کو ایک طرح سے انقلاب کہوں تو بےجا نہ ہوگا۔

چند دن پہلے دوستوں اور رفقاء کے ہمراہ سریاب کے علاقے لوہڑکاریز میں بننے والی نئی لائبریری جانے کا اتفاق ہوا، وہاں یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ اب سریاب واقعی میں کتنا بدل گیا ہے۔

لوگ سیدھی راہ سے واقف ہونے لگے، جو علم حاصل کرنےکے باعث ممکن ہوا۔ اس سے لوگوں میں شعور، دانائی، ادراک اور فہم و فراست پیدا ہوا۔ لوگ علم کی اہمیت کو جاننے لگے۔ وہ خود بھی کتابوں کے شوقین بنے اور اپنی اولادوں کو بھی کتابوں کی طرف مائل کرنے کی تاکید کی۔

اس سے پہلے یہاں کے لوگوں کو تحقیر آمیز نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا۔ اگر سریاب کا نام لیا جاتا تو لوگوں کے ذہنوں میں ایک عجیب سی تصویر بن جاتی تھی کہ وہی غنڈا گردی ماردہاڑ، لیکن اب ایسا ہرگز نہیں ہے کیونکہ سریاب کے ہر شخص کا نظریہ و افکار بدلنے لگے ہیں۔ اب سریاب کا مقام جھگڑالو مقام نہ رہا۔

طلباء و طالبات کو اپنے ہاں غیر نصابی کتابوں کا مطالعہ کرنے کو کوئی مخصوص جگہ میسر نہ تھی۔ اس وجہ سے انھوں نے اپنے محلے کے رؤسا سے ایک مستقل جگہ کی فراہمی کی درخواست کی۔ تاکہ وہ اپنی پڑھائی جاری رکھیں۔

علم کے آسمان سے اب بارش کی بوندیں زیادہ گرنے لگی ہیں۔ جگہ کی کمی محسوس ہونے لگا ہے۔ افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا ہے۔ کتابوں کے شوقین افراد کی تعداد بڑھنے لگی، لوہڑ کاریز لائبریری میں نئی کتابوں کا فقدان ہے، جس سے لوہڑکاریز لائبریری کے کتابوں کے شوقین افراد مشکلات سے دوچار ہوتے ہوئے نظر آتے رہے ہیں۔

حکومت سے مزید سہولیات، اور ایسے ہی دیگر لائبریریوں کے قیام کی التماس کرتے ہیں اور کتابوں کی فراہمی کی التجا ہے تاکہ اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کو علم کی زیور سے آراستہ کر سکیں۔ا


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔