ایک شیردل انساں غلام مصطفیٰ بلوچ
تحریر: شئے رحمت بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
شہید غلام مصطفیٰ بلوچ راغئے کےچھوٹے سے علاقے بلوچ آباد میں رہتے تھے، وہ ایک کاروباری شخص تھے، وہ اپنی محنت کی وجہ سے امیر ہوگئے تھے، لیکن کسی کو بھی ان کا خوشی برداشت نہیں ہو پایا، وہ ایک انقلابی شخص تھے، ان کو پتہ تھا کہ پاکستان ست وفاداری، ہماری سرزمین بلوچستان سے غداری ہے۔ وہ اسی لئے پاکستان فورسز اور ظالم ریاست کے کرتوتوں سے نفرت کرتے تھے اور اکثر ایسے واقعات پر تہہ دل سے افسوس کرتے تھے، ایک کاروباری شخص ہونے کی وجہ سے وہ اکثر کوئٹہ اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں گھومتے رہتے، وہ بلوچوں کا حال دیکھ کر صحیح سمجھ گئےتھے، اگر اس طرح ہم خاموش رہے تو ہماری مستقبل دردناک رہے گی۔
شہید غلام مصطفیٰ جن کو ڈیتھ اسکواڈ نے بے گناہ شہید کیا ، شہید کا گناہ بس یہی تھا کہ وہ ایک کاروباری شخص تھے، ان کے پاس مال اور دولت کی کوئی کمی نہیں تھی، ڈیتھ اسکواڈ کے لوگوں نے انکی زمینوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ انہیں یہ کہہ کر آئے کہ جب تک میں زندہ ہوں، میں نہ آپ لوگوں کی بدمعاشی برداشت کرونگا، نہ ہی آپ لوگوں کی غلامی قبول کرونگا۔ ڈیتھ اسکواڈ اکثر ان سے پیسے وغیرہ مانگتا تو وہ انکار کرتا۔ شہید غلام مصطفیٰ، شہیدوں کی خاندانوں کا اکثر مدد کیا کرتا، اور ہر وقت یہی کہتے رہے کہ پاکستانی غلامی قبول نہیں کرونگا۔ آخر کار پاکستان فوج اور ڈیتھ اسکواڈ کو برداشت نہ ہوسکا تو ان کو دسمبر 2017 کے ایک خونی آپریشن میں شہید کردیا گیا۔
شہید غلام مصطفیٰ کے بارے میں کہتے ہیں وہ اکثر یہی کہتے کہ یہاں کچھ سرمچار تھے، جو ابھی سرنڈر ہوگئے ہیں، ( میں ان منحرف سرمچاروں کا نام اس تحریر میں بیان نہیں کرنا چاہتا) میں ان کی اکثر مدد کرتا رہتا تھا، جب بھی کوئی کام پڑھتا تو وہ مجھ سے مانگتے رہتے تھے، میں ان کو ایک سرمچار اور قومی نمائندہ سمجھ کر معاشی حوالے سے مدد کرتا رہتا، لیکن اب وہ جب سرنڈر ہوگئے ہیں، وہ پوری زندگی کاروبار کریں لیکن میری ادھار سے واپس نہیں نکل سکتے، وہ اسی لئے میرے سامنے اتنا شرمندہ ہیں کہ وہ مجھے راستے سے ہٹانے کی کوششوں میں لگے ہیں۔ وہ اسی لئے مجھے رستے سے ہٹانا چاہتے ہیں کہ وہ میری نیکیوں سے باہر نہیں نکل سکتے ، اب وہ شرم کے مارے مجھے اپنی قابض فوج کی طاقت سے مارنا چاہتے ہیں، بالکل شہید نے جو الفاظ اپنے زبان سے ادا کئے تھے، بلکل ایسا ہی ہوا، وہی سرنڈر کردہ بزدلوں نے ان کو شہید کیا۔
بد قسمتی سے شہید غلام مصطفی کا کوئی اولاد نہیں، ایسے نیک دل انسان کو تحریکوں کی تاریخ میں یاد نہ کرنا سراسر نا انصافی ہے، یہ وقت وہی تھا، جہاں 2015 میں مشکے سے لیکر کئی علاقوں میں پاکستانی فوج نے خونی آپریشن کئے، جس میں پاکستانی فوج کے ہاتھوں ، عورت اور بچے اغواء ہو رہے تھے، تو مشکے کے کئی لوگ ان ظالموں کے ہاتھوں ست بچنے کےلئے اسی علاقے (راغئے) کا رخ کیا، تو شہید غلام مصطفی ایسی خاندانوں کی مدد کیا کرتا، ان کو راشن دیتا، انکو معاشی حوالے سے مدد کرتا۔ ایسے سخت حالات میں جہاں آزادی پسند سرمچاروں کی فیملی کو کوئی اپنے محلے میں رہنا خوف کے مارے پسند نہیں کرتا تھا، ایک ایسا شخص جو اپنے سرمچاروں کو سخت حالات میں امداد کیا کرتا تھا، ان کی ماوں اور بہنوں کو عزت بخشتا، اور ایسے حالات میں ڈٹ کر کھڑے رہے، ہر بلوچ کو آج کے دن ایسا ہی رہنا ہے، اپنے سرمچاروں کی مدد کرنا ہے، کیونکہ وہ ہمارے حق کےلئے سرمچار بنے ہیں۔
شہید کا آخری دن، ایک بہن کی زبانی: ہم آپریشن اور ظلم سے نجات پانے کےلئے جب اپنے علاقوں سے یہاں کوچ کرکے آئے تو ہم کو ایک باپ کا سایہ ملا، وہ ایک ایسے شخص تھے، جن کو یاد کرکے دل ہی دل میں خون کے آنسو روتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے لئے ایک ایسا درد ہے، جیسے کہ باپ یا بھائی کا درد، جب اس علاقے میں آپریشن شروع ہوگئی تو انہوں نے ہم سب کو اپنے گھر لیکر پناہ دی، ایک دن گذرنے کے بعد ، وقت آزان تھا، وہ نماز کی تیاریاں کر رہے تھے کہ کچھ موٹرسائیکل سوار لوگ آئے، ان کو اپنے ساتھ لیکر گئے، اور دوسرے دن ان کی مسخ شدہ لاش پھینک دیا گیا۔
شہید غلام مصطفٰی کے خاندان کے ساتھ ساتھ ایسے کئی لوگ غم زدہ ہیں، وہ ایک قومی شہید ہیں، ان کی قربانی اور شیردلی ہر انساں کو افسوس کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔