ایک اور عید آگئی
تحریر: میر بلوچ
دی بلوچسستان پوسٹ
جب کسی گھر میں کوئی بچہ جنم لیتا ہے، تو پورا گھر خوشیوں میں سما جاتا ہے۔ سب اس خوشی میں برابر کے ساتھ شریک ہوجاتے ہیں، ماں، باپ، بھائی، بہن، دادا، دادی سب اس بچے کی پیدائش پر گھل مل جاتے ہیں ۔ یہ ایک خوشی کا لمحہ ہوتا جو سب کو ایک ساتھ جمع کرتا ہے، سب اپنے دکھ درد اور غموں کو بھول کر اس کے آنے کی خوشی میں شامل ہوتے ہیں۔ یہ لمحہ کسی عید کے دن سے کم نہیں ہوتا، جس گھر میں بچہ جنم لیتا ہے۔ جب یہ بچہ بڑھنے لگ جاتا ہے اور وہ اپنا پہلا قدم رکھ کر چلنے لگتا ہے، تو سب کے چہرے پہ ایک امید کی مسکراہٹ بکھرنے لگتی ہے، سب اس کے لئے نیک تمناوں کی دعا مانگتے ہیں کہ وہ کامیابی کی راہ پر چل کر اپنا نام روشن کرے۔ سب اس کو ایک اچھے تعلیمی ادارے میں منتقل کردیتے ہیں تاکہ پڑھ لکھ کر قابل ہوکر اچھا آدمی بن سکے، اپنے ماں باپ کا سہارا بنے۔ جب بچہ بڑا ہوتا ہے تو اپنے ارد گرد کے لوگوں کی محرومی کو دیکھتا ہے، سوچتا ہے کہ میرے وطن کے لوگ اس طرح سے زندگی کیوں بسر کررہے ہیں۔ دوسری طرف کے لوگ کتنے خوشحال اور سکون سے زندگی گزار رہے ہیں اور میرے لوگ کیوں ذلت کی طرح زندہ رہ رہے ہیں، آیا انہیں یہ زندگی قدرت کی طرف سے ورثے میں ملی ہے یا ان کے حقوق پر کوئی قابض بن بیٹھا ہے۔ جب وہ اس ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنے لگتا ہے ان کے اندر ایک شعور بیدار ہونا شروع ہوتا ہے، اپنے لوگوں کو آگاہی دینے لگتا ہے، ان بنیادی حقوق کے بارے میں بتاتا ہے، ان کو اپنی راہ کی طرف راغب کرنے لگتا ہے، بولتا ہے، کیوں ہمیں اسطرح رہنا ہے، کیوں ہماری لاشیں پھینک دی جاتی ہیں، کیوں ہمیں لاپتہ کیا جاتا ہے۔
پھر اچانک سے اس کے گھر والوں کو ایک اطلاع موصول ہوتی ہے کہ آپ کے لال کو لاپتہ کیا گیا ہے، آپ کے بیٹے کا نام لاپتہ افراد کے فہرست میں شامل ہے۔ یہ خبر اس گھر پر ایک قیامت سی گرتی ہے کہ ایک ہنستا ہوا گھر ایک دم ماتم میں بدل گیا، یہی گھر جب اس کی پیدائش سے خوشیوں سے جھوم اٹھا تھا اب یہی گھر اس کے لاپتہ ہونے کے بعد ماتم کدہ بن گیا۔
وہی ماں جو اس کو جنم دیتے وقت بہت سی تکلیف برداشت کرچکی تھی، اور اب اس کی بیگواہی پہ دکھ و درد کو دل میں سما کر ایک زندہ لاش بن گئی ہے۔ اس ماں کے لئے ہر گزرتے دن سیاہ رات کی طرح ہوتی ہے، جو کبھی اجالا نہیں ہوتا، ہر خوشی کا لمحہ چاہے وہ عید کا دن ہی کیوں نہ ہو، سب اندھیری راتوں کی طرح اس کے دکھ کو زیادہ تکلیف پہنچاتے ہیں۔ یہ بس بلوچستان کے ایک گھر کی کہانی نہیں ہے، بلکہ یہ پورے بلوچستان کے سب گھروں کی داستان ہے، جن کے پیارے لاپتہ ہیں۔
اس وقت بلوچستان میں آئے روز فوجی آپریشن، گھروں کو جلا کر خاکستر کرنا اور لوگوں کو لاپتہ کرنا بعد میں ماورائے عدالت قتل کرکے ان لاشوں کو کسی ویرانے یا جنگل میں پھینک دینا روز کا ماحول بن گیا ہے۔
بہت سے لاپتہ افراد کے لواحقین ایک طویل عرصے تک اپنا احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں، آج بھی ماما قدیر بلوچ اپنے احتجاجی بھوک ہڑتال کیمپ میں بیٹھے ہوئے دکھائی دیتا ہے، ان میں موجود لاپتہ افراد کے لواحقین بھی شامل ہیں، جو سرد و گرم موسم کو برداشت کرکے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں، ان کی بازیابی کےلئے ایک طویل لانگ مارچ بھی کیا گیا تھا جو کوئٹہ سے کراچی اور کراچی سے اسلام آباد تک کیا گیا۔
ان لاپتہ افراد کے کیمپ میں موجود تمام بچے، بوڑھے، مائیں، بہنیں سب اپنی نظر ایک اندھی، بہری عدالت کی انصاف کے منتظر ہیں کہ کب انہیں انصاف ملے گا، ان کے پیارے بازیاب ہوکر گھروں کو واپس آئیں گے۔
دنیا میں کسی بھی قانون میں شامل یہ نہیں کہ کسی کو بنا ثبوت کے لاپتہ کرنا اور پابند سلاسل کرکے رکھنا ہو۔ بلوچستان میں ان لاپتہ افراد کی آواز بلند کرنے والے کو قتل کرنا کوئی معمولی بات نہیں بہت سے ڈاکٹر، وکلاء ،استاد، دانشور ادیب وغیرہ ریاست کی گولیوں کا نشانہ بن کر شہید ہوئے ہیں۔
آج اسلامی ممالک میں عید منائی جارہی ہے، ہر کوئی اپنے پیاروں کے ساتھ گھل مل رہا ہے، لیکن آج اس عید کے دن بھی بلوچستان کی مائیں، اپنے پیاروں کی راہ تَک رہے ہیں، کوئی بہن اپنے بھائی کی راہ دیکھ رہا ہے، تو کوئی بچہ اپنے لاپتہ باپ کی راہ پہ اس انتظار میں ہے کہ کب ان کا بابا آئے گا ان کی عید ہوجائے گی۔
آج اس عید کے دن میں یقیناً بلوچستان کے لاپتہ افراد کے لواحقین غم سے نڈھال چور چور نظر آرہے ہیں کہ ہمارا بیٹا کس حال میں ہے، وہ زندہ ہے بھی کہ نہیں کچھ پتہ نہیں۔
آنکھیں آنسوؤں میں جم گئے ہیں، بہت سے اپنے پیاروں کی راہ کو دیکھتے ہوئے اس دنیا سے چل بسے، بہت سے زندگی اور موت کی کشمکش سے گزر رہے ہیں۔
ہر دفعہ کی طرح اس دفعہ بھی مائیں اپنے کمسن بچوں کو ایک اور جھوٹ بول کر ٹال دینگے کہ آپ کے بابا آئں گے اور ہم سب ایک ساتھ عید منائیں گے۔
دنیا کی تاریخ میں اس طرح کا ظلم شاید ہی کہیں ہو، جو اس وقت بلوچستان میں جاری ہے، آج بلوچستان ایک سنگین انسانی بحران کا شکار نظر آرہا ہے۔ اگر آج ہم سب اس وقت ان لاپتہ افراد کے حق میں آواز نہیں اٹھاتے تو کل یہ مسئلہ ایک انسانی المیہ بن جائے گا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔