ایک اور عید، فیروزسمیت ہزاروں زندان میں
تحریر: اشفاق بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
مظلوموں کی دنیا بھی ظلم سے بھری ایک داستان ہوتی ہے، ایک دردناک سفر کے مانند ہوتی ہے، ایک ایسا سفر جس کے راہوں کا تعین بھی مظلوم خود نہیں کرپاتے ہیں، ظالم یہ سفر مظلوم کے لئے اتنا کٹھن بنا دیتا ہے کہ مظلوم کو ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتا ہے، وہ اپنے آپ کو بے سہارا اور لاچار تصور کرنے لگتا ہے، تو ظالم مظلوم پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیتا ہے، اس پر غالب آنے کے لئے اس پر جسمانی اور نفسیاتی طور پر حملہ آور ہو جاتا ہے تاکہ اسے جسمانی اور زہنی طور پر مفلوج بنا کر اسکے سیاہ اور سفید کا مالک بنا جاسکے۔
یہ ایک ایسا دور ہوتا ہے جس میں مظلوم کے لئے ہر چیز ظالم طے کرتا ہے، ظالم چاہتا ہے کہ مظلوم طبقہ میرے بتائے ہوئے راستے پر گامزن ہو، اُسکے کھانے، پینے، بولنے، چلنے، رہن سہن یہان تک کہ اُسکے زندگی کے ہر عمل پر قابض ہوکر اسکے پوری زندگی کو اپنے تابع کرلیتا ہے، مظلوموں کے غم اور خوشی دونوں کا سبب بھی یہی جابر ہوتاہے، جب وہ چاہتا ہے تو خوشی کو غم اور غم کو خوشی میں بدل دیتا ہے ( لیکن میرے خیال میں مظلوموں کے لئے خوشی کا دن وہ ہونا چاہیئے، جب وہ اس ظالم سے نجات حاصل کرینگے)
کچھ اسی طرح بلوچستان میں بھی ظلم کی نئی داستانیں تاریخ میں لکھے جا رہے ہیں، بلوچستان میں عید منانے کے لئے گھروں کو لوٹنے والے فرزندون کو زندانوں میں قید کرکے ازیت بھری زندگی گذارنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔
اگر آج ریاستی ٹارچر سیلوں کا جائزہ لیا جائے تو 45 ہزار سے زیادہ بلوچ لاپتہ اسیران آپ کو ان ٹارچر سیلوں میں ملیں گے، ان میں سے زیادہ تر کا تعلق نوجوان طبقے سے ہے، جن میں سے ہر کوئی کسی نہ کسی تعلیمی ادارے سے تعلق رکھتا ہے، زیادہ تر نوجوان اپنے آبائی علاقوں سے دور دوسرے علاقوں میں تعلیم حاصل کرنے جاتے تھے، کیونکہ بلوچستان کو زندگی کے تمام تر سہولیات سمیت تعلیمی سہولیات سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔ ان نوجوانوں کو کیا پتہ تھا کہ تعلیم حاصل کرنا اتنا بڑا جرم ہے جس کے لئے سالوں کے لئے زندانوں میں رہنا ہوگا، پر اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں کہ واپس زندہ لوٹینگے بھی یا نہیں۔ اب تو لگتا ہے اس دنیا میں بلوچ ہونا بھی جرم ہے۔
ان نوجوانوں کو شاہد اس لئے لاپتہ کیا گیا ہے کہ وہ بلوچ ہوکر روشن مستقبل کے خواب دیکھا کرتے تھے، وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتے تھے، انکے دلوں میں قوم، کتاب اور قلم کے لئے محبت تھا، وہ مزاحمتی سیاست میں شامل تھے، وہ کچھ کرنے اور کچھ بننے کے جذبے سے سرشار تھے، بالکل ان میں کچھ بننے کی صلاحیت موجود ہے، ان نوجوان میں سے زیادہ تر بلوچ طلباء سیاست سے منسلک تھے، وہ سیاسی اور شعوری میدان میں بلوچ نوجوانوں کو فرنٹ لائن میں لانا چاہتے تھے، جن کی جدوجہد کے بدولت بلوچ نوجوانوں کو سیاسی پلیٹ فارم میسر ہوگیا۔
لیکن یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کیا ہم اُس طلباء سیاسی پلیٹ فارم کو اُسی طرح آگے لے جارہے ہیں یا نہیں؟ کیا جو خواب انہوں نے دیکھا تھا، ہم اسکو پورا کر رہے ہیں؟
لاپتہ ہوئے نوجوانوں کا فہرست تو بہت ہی لمبا ہے، سب کا ذکر کرنا شاہد یہان ممکن ہی نہ ہو لیکن ان میں شامل چند نام لیئے بغیر شاید میں آگے بڑھ نہ سکوں، شاید میرا قلم میرا ساتھ نہ دے انکا مخلصی خود ہی میں ایک جہاں ہے۔
ذاکر مجید ، زاہد بلوچ ، شبیر بلوچ ، فیروز بلوچ ،راشد بلوچ اور ثناء بلوچ سمیت ہزاروں مخلص سنگت آج بھی بلوچ قومی مفادات کے لئے کئی سالوں سے زندانوں میں اذیت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
جب بھی میں انکے بارے میں کسی سے کچھ سنتا ہوں یا کہیں کچھ پڑھتا ہوں یا کبھی بھی ان میں سے کسی ست بھی ملا تھا تو ان سب میں ایک بات نمایاں تھا کہ باتیں کرنے سے زیادہ عملی کاموں میں زیادہ یقین رکھتے تھے اور بلوچ قومی خدمت میں ہمیشہ پیش پیش تھے، ایک لیڈر میں پائے جانے والے تمام تر خصوصیات ان میں موجود تھے، ان جیسے رہنماؤں کا آج کمی محسوس ہوتا ہے۔
فیروز بلوچ کو لاپتہ ہوئے ایک سال پورا ہونے کو ہے، یاد رہے کہ فیروز بلوچ کو 2019 مئی 29 کو قلات کے مقام سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا، جب وہ اپنے کزن کے ہمراہ عید منانے اپنے آبائی علاقے پنجگور جا رہے تھے۔
فیروز بلوچ ہمیشہ مجھ سے ایک بات کیا کرتا تھا کہ “سنگت ایک بات یاد رکھنا جو کچھ بھی کرنا، سوچ سمجھ کر کرنا” فیروز جان آپکی کچھ باتیں میں زندگی بھر نہیں بھول پاؤنگا۰
یہ ہیں لاڈلے اپنے ماں کی پالے
مگر ہو گئے زندانوں کے حوالے
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔