اک بدبخت لڑکی
تحریر: اسامہ سلیم
دی بلوچستان پوسٹ
یہ بات تھی سال پیشتر کی اور نصف النہار کا وقت تھا. آفتاب پوری طرح تمازت پہ تھا. اس کہانی کو لکھنے میں ایک سال کی بےتوجہی کےبعد آج پوری طرح قصد کیاہے کہ اسے برسرِ عام لاؤں چونکہ جزوی سا گمان ہےکہ قلب کا کچھ قرار اس کہانی کے اظہار ہی میں مخفی ہے.
سوشیالوجی کی کلاس سے فارغ ہونےکے بعد آرٹس لابی تک پہنچا ہی تھاکہ دفعتاً شان کی کال آگئی، دعائیہ کلمات کےبعد شان نے عرض کیاکہ عثمان آج کسی ضرورت کے تحت تیری حاجت پیش آگئی ہے، تیزگامی سے میری طرف پہنچ ، عثمان نے بائیک اسٹارٹ کی اور 30 منٹ کی مسافت کےبعد شان کے روبرو ہوگیا.
اولاً تو شان سے اس عجلت کی وجہ پوچھی تو شان نے عرض کیاکہ ” عثمان خدا کی قسم تو یقین نہیں مانےگا، تقریباً ایک مہینہ ہوگیاہے کسی بھی لڑکی سے جسمانی ملاقات نہیں کی اب ایک لڑکی میسر آئی ہے” بطورِ سائل عثمان نے عرض کیاکہ اس عجلت میں تم نے مجھے اپنی یہ فرمائش بتلانے کےلئے بلایا ہے؟
جواباً شان نے کہا کہ ارے جانی پریشان مت ہو تیری ہوس بھی بجھادیتا ہوں، بس تو اس ضرورت کو پوری کرنے کیلئے اپنی بائیک کو بھی استعمال میں لا، کچھ دیرکے لیے تو عثمان پہ سکوت طاری ہوگیا لیکن ہوس غالب آگئی اور اس نے حامی بھرلی۔
شان نے ارادہ کیاکہ فقیر کالونی سے لڑکی کو بائیک پہ بٹھاکر سیدھا شیریں جناح کالونی میں جمال کےہاں ایک خالی کوٹھی میں لاکر وہیں مجامعت کریںگے. اسی طرح شان نے جمال سے عہد کرلیا تھاکہ موقع اور جگہ کے عوض وہ بھی اس لڑکی کےساتھ مباشرت کرسکتا ہے. لڑکی کو بائیک پہ بٹھانے کےبعد عثمان کے پورے بدن پر تھرتھراہٹ کی سی طاری ہوگئی تھی، چونکہ اس سے قبل عثمان نے کسی بھی لڑکی کےساتھ جسمانی تعلق نہیں رکھا تھا، یہ اس کےلیے ایک نیا تجربہ تھا، جو اسے اندر ہی اندر سہم میں مبتلا کیئے جارہاتھا. لیکن اسے اپنی حمایت کو اثبات تک بدلنے اور بولنے میں جھجھک محسوس ہورہی تھی لہٰذاٰ بائیک چلتی جارہی تھی اور سفر کا فاصلہ بھی کم ہوتا جارہا تھا لیکن گھبراہٹ عمل کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے رگ و ریشے تک میں سرایت کرتا جارہاتھا اور وہ اس دماغی الجھن میں تھاکہ ازاں بعد اس کے ساتھ کیا ہوگا، لیکن اس ذہنی سراسیمگی کے عین وہ اپنے عارضی منزل کو پہنچ چکاتھا، جہاں جمال پیشتر سے ان کا منتظر تھا.
کوٹھی میں داخل ہوتےہی سامنےوار کمرے میں پہلے سے ہی ایک انجان نوجوان موجود تھا لیکن شان توجہ کیئے بغیر دوسرے کمرے میں لڑکی کےساتھ داخل ہوگیا اور عثمان اس الجھن میں ملبوس تھاکہ پہلے ہی تین بندے آسرا باندھے بیٹھے تھے کہ یہ چوتھا کس شجر سے ٹپکا؟
اس دوران شان تخلیے میں لڑکی کےساتھ ہمبستر تھا اور عثمان اس سوچ و خوض میں غرق اپنے فکر کی تتلیاں اڑا رہاتھا. جونہی 10 منٹ گزرنے کے بعد جب شان کمرے سے باہر آیا تو اپنی کھسیانی نظروں سے جمال کی طرف ایماء کیا جانے کو. جمال جب 5 منٹ بعد لوٹا تو شان نے بلاتوقف اور بالجبر عثمان کو تحکیم کی کہ عثمان اب تیری باری جا. لیکن عثمان ڈر، خوف، پریشانی، اور دلی ہمدردی سے پر تھا لڑکی کیلئے، اور اس نے اثبات میں کہاکہ شان میرا ایسا کچھ ارادہ نہیں اور نہ ہی میں نے اس فعل کے ارتکاب کے عوض تمہیں یہاں تک چھوڑا ہے. شان نے قطع نظر کرتے ہوئے اس انجان لڑکے کو تحکیم کی اور وہ بلاتوقف جی حضور کرتا ہوا چل دوڑا اور 5 منٹ میں عارضی طور پر جنسی آسودگی لینے کے بعد واپس آیا اور لڑکی برقعہ پوشنے کےبعد کمرے سے باہر آئی، یوں خیرباد کہنے کےبعد تینوں اپنی منزلِ مقصود کی طرف نکل پڑے. راستے میں عثمان سکھ کی آہ لےرہا تھاکہ آج وہ اس گناہِ کبیرہ سے بچ نکلا تھا. لڑکی کو گھر چھوڑنے کے بعد عثمان نے شان سے بات کی کہ میرے دوست یہ لڑکی کسبی تو نہیں؟ جسے تین لڑکوں کےساتھ خود سے شہوت کرانے میں بھی کوئی دقت محسوس نہیں ہوئی ہاں؟
جواب بالجواب میں شان نے کہاکہ نہیں ارے جانی یہ لڑکی مجھ سے بہت پیار کرتی ہیں، جبھی میرے کہے پر ہر فرد کےساتھ جسمانی ملاپ بھی کرلیتی ہے. یہ سن کر عثمان کے دل و دماغ میں اس لڑکی کےلیئے رقت سی طاری ہوگئی اور گھر کی جانب لوٹتے متواتر اس فکر میں گم تھاکہ اس نام نہاد محبت کی لالچ نے اس لڑکی سے اس کی وقعت ، اس کی حرمت، اور عصمت تک چھین لی. لیکن یہ شاید ایک فکر تھی جسے کبھی نہ کبھی تو ختم ہونا ہی تھی. لیکن معاملہ اس کے برعکس ہی ہوا اور ایک سال کےبعد اس نے اس پورے واقعے کو ایک تحریری شکل دی اس سوچ کے تحت کہ جلد یا بدیر اس کے دل کی یہ فگار مٹ جائے.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔