الجزائر کی جدوجہد آزادی فینن کے قلم کی روشنی میں
تحریر: شہیک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
الجزائر پر 1830 میں فرانس نے قبضہ کیا اور پھر اس قبضے کو بزور طاقت برقرار رکھتے ہوئے الجزائر کے فرزندوں کی ہر بغاوت کو نہایت بے دردی سے کچل دیا گیا۔ فرانس نے الجزائر کو اپنا حصہ قرار دیا لیکن الجزائر کے فرزندوں نے ہر دور میں اس کے خلاف مزاحمت کی۔ الجزائر کی تحریک پر سیر حاصل تحقیق کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے اکثر پہلووں کی مشابہت بلوچ تحریک سے ملتی ہے۔
الجزائر میں گرتے پڑتے تحریک جب روایتی حدوں سے نکل کر تنظیمی حدوں میں پہنچی تب الجزائر کو نجات مل سکا۔ الجزائر کی تحریک نے سیکھا اور سیکھتے ہوئے انہوں نے وقت و حالات کا صحیح تجزیہ کرتے ہوئے دشمن کے حوالے سے کسی غلط فہمی یا اپنے حوالے سے کسی خوش فہمی کا شکار نہ ہوئے۔
نیشنل لبریشن فرنٹ (ایف ایل این) نے جب تحریک کا احیاء کیا تب بہت سی مشکلات کے باوجود فیصلہ کن تدابیر کے ذریعے اور جامع حکمت عملی کیساتھ وہ دشمن پر حاوی ہوتے گئے۔
فینن جو جدوجہد آزادی کا ایک روشن ستارہ تھا، جو ماہر نفسیات تھا، فینن کی مقبولیت کی اصل وجہ “افتادگان خاک” ہوئی جس میں اس نے نوآبادیاتی نظام کے میکانزم پر سیر حاصل بحث کرتے ہوئے ڈی کالونائزیشن کا راستہ دکھایا ہے۔ فینن کی باتوں کا عملی اطلاق الجزائر کی سرزمین پر کامیابی کیساتھ ہوا جب تاریخ مجسم کی حیثیت سے الجزائر کے فرزندوں نے نوآبادکار کو شکست سے دوچار کیا۔
فینن کے افتادگان خاک پر ایک مختصر نوٹ میں پہلے لکھ چکا ہوں، اب ہم اس کے ایک دوسری اہم تصنیف پر روشنی ڈالیں گے جس میں وہ الجزائر کی تحریک کا مکمل جائزہ پیش کرتا ہے۔ گو کہ فینن خود فرانس کی شکست تک زندہ نہ رہا لیکن ڈی کالونائزیشن کا جو نظریہ اس نے پیش کیا وہ آج بھی زندہ ہے۔ ڈی کالونائزیشن کے لیے جس جوابی تشدد کا فینن نے اظہار کیا تھا اسے امید یہی تھی کہ ڈی کالونائزیشن کی صورت میں مزید جبر جنم نہیں لے گا بلکہ مسخ شدہ دیسی کی جگہ ایک نیا انسان پیدا ہوگا جو نوآبادیاتی نظام کے تعفن زدگی سے آزاد ہوگا اور ایک پرامن و آسودہ معاشرہ بنائے گا۔
“سامراج کی موت” ایک اہم تصنیف ہے ان سیاسی کارکنوں کے لیے جو الجزائر کے جدوجہد کو سمجھنا چاہتے ہیں کیونکہ فینن اس میں الجزائر کے سماج کا خلاصہ بیان کرتا ہے۔
فینن دیباچہ میں لکھتا ہے کہ “الجزائر کی سرزمین پر سامراج کے خلاف خطرناک جنگ لڑی جارہی ہے۔ تحریک آزادی کے مخالفین کا دعویٰ ہے کہ جنگ کی قیادت کرنے والے لوگ نہتے عوام کے خون کے پیاسے ہیں۔ دوسری طرف جمہور نواز قوتوں کا استدلال ہے کہ لبریشن فرنٹ کی قیادت اپنے لوگوں کو جنگ کی بھٹی میں جھونک کر سخت غلطی کا ارتکاب کررہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب تحریکی قیادت لوگوں کی ان باتوں پر کان دھرے تو کیا وہ ظالم و جابر سامراج کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھ سکتی ہے۔”
فینن بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے وضاحت کرتا ہے کہ ” حقیقت یہ ہے کہ جب لبریشن فرنٹ آزادی کی جنگ کے لیے فرانسیسی فوج سے نبرد آزما تھا تو اس نے اپنے فوجی دستوں کو اس بات کی پوری تلقین کی کہ اپنے مقصد کے لیے تم دشمن کے ٹھکانوں کو ضرور نشانہ بنائو لیکن اس حقیقت اور اصول کو کبھی فراموش مت کرنا کیونکہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے ناجائز ذرائع کا استعمال اچھائی کے بجائے مزید ظلم و بربریت کی طرف لے جاتا ہے۔”
فینن سامراجی پروپیگنڈہ کے رد میں وضاحت کرتا ہے کہ ” اگر مغربی اقوام کار زار حیات میں ظلم و تشدد کا بازار گرم رکھتی ہے تو اس کا صاف مطلب ہے کہ وہ اپنے نظریہ کیساتھ مخلص و وفادار نہیں ہے اور اگر تیسری دنیا کی تحریکیں اپنے مقصد کے حصول کے لیے تشدد کا مرتکب ہوتی ہیں تو ان پر بربر اور ظالم ہونے کا الزام دھر دیا جاتا ہے۔ “
فینن فرانسیسی پروپیگنڈہ کو جھٹلاتے ہوئے لکھتا ہے کہ” میں واضح کردینا چاہتا ہوں کہ دشمن کے پروپیگنڈہ میں کوئی صداقت نہیں۔ حقیقت یہ ہے حق و باطل کی اس معرکہ آرائی میں جس حد تک دشمن چلا گیا ہے، ہم کبھی اس سطح تک جانے کا تصور بھی نہیں کرسکتے لیکن کاروان آزادی کے سفر میں ایسا ممکن نہیں کہ ہمارے دامن پر خون کے دھبے نہ ہوں۔ لہذا ہم نہ اس سے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرینگے نا ہی ان سے انکار کریں گے۔”
فینن زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ “لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ آزادی کی اس راہ میں جدوجہد کرنے والی اتنی بڑی تعداد کے لیے کسی سخت ضابطہ کی پابندی مشکل ہے اور پھر ایسی حالت میں جب مقابلہ بھی ایک استعماری قوت سے ہو جو اپنے مادی وسائل کے حوالہ سے بہت منظم ہو۔”
فینن یہاں تحریک کی کمزوریوں پر حیلہ و بہانہ کی بجائے انہیں تسلیم کررہا ہے اور اس کی بات میں وزن ہے کیونکہ جیسے تحریک آگے بڑھتی ہے تحریک کے مسائل بھی بڑھنے لگتے ہیں، تحریک جتنی پھیلتی ہے قیادت کے لیے مسائل بھی اتنے ہی پھیلنے لگتے ہیں اور ایسے میں قیادت ان مسائل کو تسلیم کرکے ہی ان کو دور کرسکتا ہے بصورت دیگر پرانی روش پر قائم ہوکر ان مسائل کا حل ہرگز ممکن نہیں۔
فینن آگے چل کر الجزائر کے سماج کے خدوخال واضح کرتا ہے کہ نیم جاگیردارانہ سماج میں جہاں مذہبی رسم و رواج ہو وہاں تحریک نے کس طرح مثبت اثرات ڈالے۔
ریڈیو جسے شروع میں الجزائر کے لوگ دھتکارتے تھے لیکن جب تحریک نے اس کو استعمال کرنا شروع کردیا تب ان پر آشکار ہوا کہ یہ تو سائنس کی ایجاد ہے۔ جس کا فرانس سے کوئی تعلق نہیں۔ نتیجتاً لوگوں نے دھڑا دھڑ ریڈیو لینا شروع کردیے جہاں انہیں تحریک کی خبریں سننے کو ملتی۔ دیہی علاقوں میں جہاں بجلی کا مسئلہ تھا وہاں لوگوں نے بیٹری کے ذریعے اس کا حل ڈھونڈ نکالا۔ یہ تحریک تھی جس نے ایک پسماندہ سماج کو ریڈیو رکھنے پر قائل کردیا۔
فینن اگلے باب میں عورت کے کردار پر بحث کرتے ہوئے نہایت خوبصورت جملہ لکھتا ہے کہ ” تحریک آزادی کا بار امانت اٹھانے سے عورت جمالی حدوں سے نکل کر جلالی حدوں میں داخل ہوگئی۔”
ایک نوآبادیاتی پسماندہ سماج میں جہاں عورت کا کردار مزید سکڑ کر رہ جاتا ہے وہی تحریک آزادی نے عورت کے روایتی کردار کو انقلابی کردار میں ڈھال لیا۔
عورت اب فقط گھر کی ذینت نہیں تھی، نا ہی وہ فقط گھر کی عزت تھی بلکہ وہ الجزائر کی بیٹی بن گئی اور اپنے کامریڈوں کی بہن بن کر اس نے جدوجہد میں کلیدی کردار ادا کیا۔ عورت کے کردار کی بدولت بہت سی اہم کامیابیاں حاصل ہوئی۔ فینن لکھتا ہے کہ بعض جگہوں پر عورت مرد کی ہمت بن کر اسے لڑنے کا درس دیتی اور اسے یہ جتاتی کہ تمہاری ذاتی آسودگی بے معنی ہے جب تک اجتماعی آزادی قید میں ہے۔
عورت نے تنظیمی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ جب ضرورت محسوس ہوئی تب پردہ کو ڈھال بنایا اور جب ضرورت محسوس ہوئی حکمت عملی کے تحت اس کو ہٹا دیا کیونکہ وہ جمالی کی بجائے جلالی حدوں میں داخل ہوچکی تھی اس لیے ظاہری خدوخال اس کے لیے اتنی معنی نہیں رکھتی تھی۔
تحریک آزادی نے انسانی رشتوں کو ایک نیا معنی فراہم کیا اب رشتے روایتی رشتے نہیں رہے بلکہ ان کو انقلابی تڑکہ لگ چکا تھا۔ کہیں باپ آگے تھا تو کہیں بیٹا آگے اور باپ پیچھے اسی طرح کہیں بیٹی آگے تھی۔ کہیں چھوٹا بھائی قابلیت کی بنیاد پر کمانڈ کررہا ہوتا اور بڑا بھائی ذمہ داریوں کو اس کے ماتحت نبھاتا۔ بقول فینن جدوجہد نے سماج کی کایہ پلٹ دی تھی۔
جو رشتے بوجھ محسوس ہوتے تھے تحریک کے قالب میں ڈھل کر وہی سہارا بن گئے اور مزید پختہ ہوگئے۔ میاں بیوی کا رشتہ بھی بدل گیا، بیوی اپنے میاں کو کوستی کہ تم ظلم کے خلاف کیوں خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہو۔
نوآبادیاتی نظام کے پس منظر میں فینن نوآبادکار کے جبر و بربریت کا ذکر کرتا ہے کہ آزادی کے جہدکاروں پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے۔ ان کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ جب کوئی زندہ گھر پہنچتا بھی تو اسے ویرانیاں ہی ملتی۔ گھر پہنچنے پر اجڑ چکا ہوتا۔ جہدکار کی مسکراہٹ کھوکھلی ہوتی کیونکہ بغیر کامیابی کے اس کی مسکراہٹ کوئی معنی نہیں رکھتی۔ گھر والوں کو ذہنی اذیت دی جاتی۔
فینن نفسیاتی حربوں کا بھی تذکرہ کرتا ہے کہ کس طرح نفسیاتی حربوں کے ذریعے مایوسی پھیلانے کی کوشش کی جاتی رہی۔ جھوٹی خبریں پھیلائی گئی، پروپیگنڈہ کیا گیا لیکن جدوجہد مسلسل عزم کیساتھ ان سب کا جواب دیتا گیا۔
جدوجہد بالاخر کامیاب ہوا یوں فینن کامیاب ہوا۔۔۔
1962 میں الجزائر ایک آزاد ملک بن کر ابھرا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔