افغانستان پھر سے انتہاء پسندی کی زد میں
تحریر: شاہ دوست
دی بلوچستان پوسٹ
آج دنیا کو جس مسلم انتہاء پسندی کا سامنا ہے، اس کا آغاز افغانستان میں ثور انقلاب کے بعد اُس وقت ہوا جب 29 دسمبر 1979ء کو افغان سربراہ ببرک کارمل کی درخواست پر روسی فوج افغانستان میں داخل ہوئی اور اس کے بعد امریکا اور سعودی عرب نے پاکستان کی مدد سے کمیونزم کا راستہ روکنے اور سویت یونین کو گرم پانیوں اور خلیج کے تیل کے ذخائر تک رسائی کو مسدود کرنے کیلئے مذہب کا استمعال کیا۔
سعودی عرب نے پوری دنیا سے جنگجو مجاہدین پاکستان پہنچائے اور امریکا نے ان جھتوں کی جدید عسکری تربیت اور مالی امداد کی جبکہ پاکستان کے دینی مدارس میں ان جھتوں کی رہائش اور گوریلا تربیت اور انہیں افغانستان پہنچانے اور زخمی ہونے کے صورت میں ان کے علاج و معالجہ کا بندوبست کرنے کی زمہ داری تھی ۔
اسی طرح پاکستان کے تمام مدارس کو جہاد افغانستان کیلئے استمعال کیا گیا۔ اور پھر دنیا کے تمام جنگجو جھتے پاکستان کے صوبہ پختونخواہ اور قبائلی علاقوں اور مقبوضہ بلوچستان میں قائم ہونے والے مدارس میں ٹہرائے گئے اور اسکے ساتھ ساتھ امریکا نے اپنے خفیہ ایجنسی CIA کے ذریعے پاکستان کے خفیہ اداروں کو جدید تربیت اور نیٹ ورک کے استعداد فراہم کیا اور پھر ان سب اداروں نے اُن تمام مدارس میں موجود جنگجو جھتوں کی تربیت کرکے، انہیں سویت یونین کے خلاف جنگ میں جھونک دیا اور اس طرح اُن مراکز کیلئے اسلحہ امریکا اور سرمایہ سعودی عرب نے فراہم کی اور اس کے علاوہ مزید سرمائے کے کیلئے چرس حشیش کے علاوہ ایک نئی منشیات ہیروئین کی اسمگلنگ سے CIA نے اُن تمام افغانستان کے برسرپیکار جھتوں جہادیوں کی مزید مالی معاونت کی اور اس طرح ان قبائلی علاقوں میں پاکستان کے اور دوسرے علاقوں سے آنے والے جنگجو بھی رہائش پزیر تھے۔
پھر جنیوا معاہدے کے بعد جب روسی فوج افغانستان سے نکل گئی، تو طے شدہ منصوبے کے تحت ایک طرف شدت پسند جہادی عناصر کو کشمیر میں برسرپیکار کیا گیا اور دوسری طرف افغانستان میں ایسی حکومت کے قیام کی راہ ہموار کرنا شروع کیا گیا جو پاکستان کیلئے تذویراتی گہرائی کا سبب بن سکے اور اس مقصد کے لیے پاکستان کے مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو استعمال کیا گیا جنہیں پشتو زبان میں طالبان کہتے ہیں۔
1988ء سے 1995ء کے دوران افغانستان شدید خانہ جنگی کا شکار رہا اسکی وجہ قبائلی سردار ایک دوسرے کے برتری کو تسلیم کرنے کو آمادہ نہیں تھے اور یہ بات پاکستانی منصوبہ سازوں کے لیے بہت بہترین تھی کہ وہ طالبان کے ذریعہ افغانستان میں ایک ایسی حکومت قائم کرے جو پاکستان کے لیے معاون ثابت ہو، پھر 1995ء میں قندہار سے شروع ہونے والا سلسلہ بلآخر کابل کے فتح پر منتج ہوا اور اس طرح پورے افغانستان میں قبضے کی شکل میں تکمیل پذیر ہوا اور پھر ان سب کے بعد افغانستان میں طالبان نے اسلام کے نام پر سخت گیر اسلامی قوانین پر سفاکانہ انداز میں عمل کرایا، جہاں خواتین کے لیے تعلیمی ادارے بند کردئیے گئے اور سماجی معاشی سرگرمیوں پر بھی پابندی عائد کردی گئی۔
یہ تمام حالت افغان عوام کے لیے جہنم سے کم نہیں تھا اور یہ حکومت چھ سال تک چلی اور یہ بہت سخت گیر سزاؤں کا دور تھا۔ جو آگ پاکستان اور امریکہ نے 1980 میں افغانستان میں لگائی آج بھی افغانستان اُس آگ میں جل رہا ہے اور اب تو شیر خوار بچے اور مائیں بھی محفوظ نہیں اور جب تک دنیا پاکستان کو ان جہادیوں کی مدد کرنے سے روکتا نہیں، اُس وقت تک افغانستان اِس مذہبی انتہا پسندی کی آگ میں جلتا رہے گا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔