اعلیٰ تعلیم یافتہ مزاحمت کار
ٹی بی پی اداریہ
یکم مئی کو دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک نے قلات کے پہاڑی علاقوں میں ایک مسلح تصادم کی خبر دی، جس میں دونوں اطراف جانی نقصانات کا دعویٰ کیا گیا۔ اگلے دن بلوچ مزاحمتی تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے اپنے ایک جاری کردہ بیان میں اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ مسلح تصادم پاکستانی فوج اور انکی تنظیم کے بیچ ہوئی ہے، اور گھنٹوں جاری رہنے والی اس جھڑپ کے دوران انکے دو تنظیمی ساتھی شاہ داد بلوچ اور احسان بلوچ جانبحق ہوگئے ہیں۔
تنظیم نے یہ دعویٰ کیا کہ دونوں احسان اور شاہ داد گذشتہ ایک سال سے بی ایل اے کا حصہ تھے۔ بعد میں یہ تفصیلات منظر عام پر آئیں کہ کہ دونوں نوجوان اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے، اور پاکستان کے ایک ممتاز تعلیمی ادارے قائد اعظم یونیورسٹی سے ماسٹرز کرچکے تھے اور ان میں سے ایک کرونا وبا سے پہلے ایم فل بھی کررہا تھا۔ یہ خبر انکے دوستوں، ہم جماعتوں، استادوں اور عوام کیلئے چونکا دینے والا تھا۔ بلوچ حلقے اس بات پر ضرور حیران تھے کہ اتنے طویل عرصے تک وہ کیسے کامیابی کے ساتھ ایک مسلح تنظیم میں شامل ہونے اور کام کرنے کو صیغہ راز میں رکھنے میں کامیاب رہے، تاہم وہ اس بات پر حیران نہیں تھے کہ انکے پاس اعلیٰ ڈگریاں تھیں۔
جبکہ پاکستانی عوام اس بات پر حیران تھے کہ کس طرح دو اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ایک ایسے مسلح تنظیم کا حصہ بنے، جو پاکستان کے خلاف بلوچستان کی آزادی کیلئے لڑرہا ہے۔ انکی یہ غیر یقینی کیفیت، دراصل بلوچستان میں دو دہائیوں سے جاری آزادی کی تحریک سے بیگانگی اور اس کے حقائق سے بے خبری پر مبنی ہے۔ اس بات پر بحث کی جاسکتی ہے کہ بلوچستان کے حالات سے لوگوں کی لاعلمی ایک دانستہ پروپگینڈہ کا حصہ ہے، تاکہ لوگوں کو اپنے گھر کے آنگن تک سے آگاہی حاصل نا ہوسکے۔
پاکستان کے تعلیم یافتہ طبقے کو یہ بات معلوم ہونا چاہیئے کہ احسان اور شاہ داد پہلے اعلیٰ تعلیم یافتہ بلوچ نہیں جو آزادی کے تحریک کا حصہ ہیں۔ بلوچستان میں جاری تحریک زیادہ تر تعلیم یافتہ بلوچ سیاسی کارکنان اور مزاحمت کاروں پر مشتمل ہے۔ حتیٰ کہ بلوچستان کے دو سب سے بڑے مزاحمتی تنظیموں کے سربراہ ایسے ہی اعلیٰ تعلیم یافتہ بلوچ ہیں، جنہوں نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد پیشہ ورانہ زندگی اختیار کرنے کے بجائے مزاحمتی تحریک کا حصہ بنے۔ ان میں بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ، جو ایک گولڈ میڈلسٹ ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں اور بلوچ لبریشن آرمی کے سربراہ بشیر زیب بلوچ جنہوں نے بلوچستان یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ہوئی ہے شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دنوں طلباء سیاست میں متحرک تھے اور بلوچستان کی سب سے بڑی طلباء تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔ عمومی رائے کے برعکس دونوں قبائلی سردار بھی نہیں بلکہ متوسط طبقے کے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بلوچستان کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو کوئی بہلا پھسلا کر ایک طاقتور فوج کے خلاف لڑنے کیلئے بلوچ تحریک آزادی میں شامل نہیں کررہا، بلکہ یہ تحریک خود ان تعلیم یافتہ نوجوانوں نے شروع کی ہوئی ہے۔