افغان صدر اشرف غنی اور ان کے حریف عبداللہ عبداللہ کے درمیان ایک عبوری معاہدہ طے پاگیا ہے ۔
عبداللہ عبداللہ نے ٹوئٹر پیغام میں لکھا کہ ہم نے مذاکرات میں پیش رفت کی ہے اور متعدد اصولوں پر ایک عارضی معاہدے تک پہنچ گئے ہی جبکہ معاہدے کو حتمی شکل دینے کا کام جاری ہے۔
خیال رہے کہ وہ اس سے قبل اشرف غنی کے ساتھ ہوئے اقتدار کے ایک معاہدے کے تحت افغانستان کے چیف ایگزیکٹورہ چکے ہیں لیکن گزشتہ برس ہوئے صدارتی انتخابات کے نتیجے میں اس عہدے سے محروم ہوگئے تھے۔
انتخابات میں شکست کو تسلیم کرنے کے بجائے عبداللہ نے اپنے آپ کو صدر قرار دے دیا تھا لیکن بین الاقوامی برادری صرف اشرف غنی کو صدر مانتی ہے۔
تنازع کے باعث افغانستان میں ایک ایسے وقت کے دوران شدید خلفشار دیکھنے میں آیا کہ جب کورونا وائرس نے روز مرہ زندگی کو مشکل بنادیا ہے اور طالبان امریکا کے ساتھ امن معاہدے کے باوجود حملے کررہے ہیں۔
ٹوئٹر پیغام میں عبداللہ عبداللہ کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں سیاسی معاہدے کو جلد از جلد حتمی شکل دینے کی امید ہے تا کہ ہم تمام تر توجہ کووِڈ 19 پر قابو پانے کے لیے صرف کریں، ایک باعزت اور پائیدار امن کو یقینی بنائیں اور قومی اتحاد اور یکجہتی کے ساتھ معاشی اور سلامتی کے چیلنجز کا سامنا کریں۔
تاہم افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے اس حوالے سے کوئی تبصرہ فوری طور پر سامنے نہیں آیا۔
ایک افغان عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ عبداللہ عبداللہ نے اشرف غنی کے سامنے ایک کثیر الجہت تجویز پیش کی ہے۔
اس پیشکش کے تحت انہیں طالبان کے ساتھ ہونے والے امن مذاکرات کی سربراہی اور ساتھیوں کو اعلیٰ سرکاری عہدے دینے کے ساتھ حکومت میں 50 فیصد حصہ چاہیئے۔
عہدیدار کے مطابق اس تجویز میں عبداللہ عبداللہ کو ایگزیکٹو وزیراعظم کا عہدہ دینا بھی شامل ہے لیکن اشرف غنی نے اس تجویز کو منظور نہیں کیا۔
دوسری جانب اشرف غنی کے دوسرے نائب صدر سرور دانش نے تصدیق کی تھی عبداللہ عبداللہ ملک کی امن کونسل کی سربراہی کریں گے۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ قومی شراکتی حکومت کے فریم ورک میں عبداللہ عبداللہ کے ساتھ معاہدے کو حتمی شکل دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ادھر امریکی نگرانی کے ادارے کا کہنا تھا کہ افغانستان کو کورونا وائرس کی تباہی کا سامنا ہے۔
افغانستان کی تعمیر نو کے خصوصی انسپکٹر جنرل نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ افغانستان کے متعدد اور بعض صورتوں میں منفرد خطرات، کمزور نظامِ صحت، بڑے پیمانے پر غذائی قلت، غیر محفوظ سرحدیں، بڑے پیمانے پر اندرونی نقل مکانی، ایران کے ساتھ ہم آہنگی اور جاری تنازعات نے اس بات کا امکان پیدا کردیا ہے کہ آئندہ آنے والے مہینوں میں ملک کو صحت کی تباہی کا سامنا ہوگا۔