آہ ! ساجد حسین – زیرک بلوچ

264

آہ! ساجد حسین

تحریر۔ زیرک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آخر کار منتظر نگاہوں کو چین آگیا، اب شاید خدا سے کوئی گلا نہیں ہوگا ہمیں، جہاں ہر روز آنسو بہتے ہوں، جہاں انسانی جانوں کی قیمت اتنی سستی ہو، وہاں رونا کیسا؟ ساجد اب کے بار ہم جذباتی نعروں سے دل کو بہلانے کی بے جا کوشش بھی نہیں کریں گے کہ اگر ساجد کو مارو گے تو دس نکلیں گے کیونکہ ہم نے پہلے ہی بہتوں کو نکلتے دیکھا، مرتے دیکھا، غائب ہوتے دیکھا۔ اب کی بار نعروں کے سہارے دن نہیں گذاریں گے۔

سویڈن ہی کے زمین پر ہم نے پہلے بھی ایک قیمتی انسان گنوایا تھا، مگر ساجد اب کی بار شاید تمہاری باری تھی، بقول بابا مری بلوچوں کی جنگ صرف پنجابیوں سے نہیں بلکہ دنیا کے ان سامراجی قوتوں سے ہے جو ہر جگہ کہیں نہ کہیں مظلوموں پہ ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھا رہے ہیں۔ اپنے زمین پہ شہادت کی موت حاصل کرنے کی تمہیں بھی تمنا تھی شاید۔ مگر یوں ساجد تمہارا بچھڑ جانا پوری قوم کے لئے ایک سانحے سے کم نہیں کہ اب ساجد جیسا سیاسی لکھاری کہاں سے لائیں، جس زمیں پہ قلم و کتاب پہ پابندی ہو، جہاں اسکولوں پہ مورچے بنائیں جائیں، تعلیمی اداروں کو فوجی چھاونی بنایا جائے، وہاں ساجد جیسا طالب علم دنیا کے ان ممالک کی طرف زیست کی امید بھری نگاہوں سے دیکھتا ہے کہ شاید وہاں انسان بستے ہوں، انسان جو انسانوں کا درد سمجھتے ہوں، وہاں مفاد سے بڑھ کر احساس وجود رکھتے ہوں، مگر ساجد تمہاری شہادت نے پوری دنیا کے نام نہاد انسان دوست، لبرلزم و جمہوریت کے منہ پہ طمانچہ مارا ہے۔

یورپ ہو یا امریکہ و دنیا کے دیگر نام نہاد جمہوریت کے نام پہ ظلم ڈھانے والے ممالک بس اپنی مفادات کی حد تک جمہوری ہیں، لبرل ہیں، سوشل ہیں۔ اس رو زمین کے کسی حصے میں تو انسان بستے ہونگے جنہیں اپنوں کے کھونے کا تو رنج ہوگا جو یہ جانتے ہونگے کہ بے موت مرنا کتنا بھیانک ہے، جو انسانی جسموں کے بے نام و نمود دفنانے پر تو احتجاج کرتے ہونگے، مگر کہاں ہے وہ انسان جو احساس رکھنے والا جانور کہلاتا تھا۔

یہ جنگ جاری رہے گی، ساجد جیسے تو نہیں آسکتے البتہ ساجد کی شہادت نے اس غلام خطے پہ بسنے والے غلاموں کی آنکھیں ضرور کھول دی ہونگی کہ اب آزادی کے سواء کوئی اور راستہ ہے ہی نہیں۔ اب رونا نہیں کیونکہ آنسو سے زمیں تر ہوسکتی یے مگر ساجد جیسے انسان واپس نہیں آسکتے۔ جہاں ساجد جیسے لکھاری و دانشور کی ضرورت ہمیں قیامت تک محسوس ہوگی جس نے طالب علمی کے زمانے سے اپنے دوستوں کو کھو کر اس راستہ کا انتخاب کیا تھا۔
ساجد ادیب تھا
ساجد دانشور تھا
ساجد صحافی تھا
ساجد لکھاری تھا
سب سے بڑھ کر ساجد ایک بلوچ تھا

ایک پڑھے لکھے صحافی کا قتل ہوا اور وہ اس زمیں کے ایسے خطے میں جہاں لوگ اپنی ترقی کی مثالیں دیتے ہیں کہ ھم تیسری دنیا کے غلام جیسے نہیں ھم آزاد ہیں۔ یہ آزادی واقعی تمھاری ہی ہے، کسی ایک غلام کی نہیں، جو ہر حال میں جینا چاہتا ہوں اپنی جہد کو اپنی منزل کے لیئے ہر سانس پہ قربان کرنا چاہتا ہو۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔