آخری گولی – میرل خان

560

آخری گولی

تحریر: میرل خان

دی بلوچستان پوسٹ

رات کی تاریکی میں موٹرسائیکلوں کی آواز سے علاقے میں ایک عجیب قسم کا ماحول تھا، دشمن میں ایک ہلچل سی پیدا ہوچکی تھی اور دشمن کو اندازہ ہوچکاتھا کہ ہم پر حملہ ہونے والا ہے. ان کے کیمپ کے اندر ایک خوف کا ماحول پیدا ہوچکا تھا.

جنگ شروع ہونے سے پہلے دشمن ہمت ہار چکی تھی. جنگ کی پہلی گولی سرمچاروں کی طرف سے چلی راکٹوں اور گولیوں کی آواز علاقے میں گونج اٹھی. دشمن بے بسی سے کیمپ کے اندر کی طرف دوڑ رہے تھے.

علاقے کے لوگوں کو اس حملےکے انجام کا بخوبی علم تھا، مگر پھر بھی وہ سرمچاروں کی فکر میں تھے کہ اللہ ان کو کامیاب کریے. ان کو معلوم تھا کہ دشمن شکست کے بعد علاقے کے لوگوں سے اپنا سارہ بدلہ لینے کی کوشش کرے گا.

علاقے کے مرد حضرات علاقے سے نکلنے کی کوشش کررہے تھے. جنگ جاری تھا، دشمن اسی انتظار میں تھے کہ سورج نکلتے ہی دوسرے علاقوں سے ہمیں مدد پہنچ جائے گی. سورج نکلنے تک جنگ جاری تھا، دشمن کے لئے کوئی مدد پہنچ نہ سکا. دشمن بے بس ہوچکا تھا، ان کے بہت سے سپاہی قتل ہوچکے تھے وہ فائرنگ بند کر کے سرنڈر کرنے پر تیار تھے کہ اچانک دوسرے علاقوں سے فوجی اور سرکاری لوگ پہنچ گئے. مدد کے لئے آنے والے دشمن کو اندازہ نہ ہوا کہ سرمچار کہاں کہاں سے حملہ کررہے ہیں، کتنے سرمچار ہوسکتے ہیں، ہمارے کتنے لوگ مارے جاچکے ہیں. ان کو علاقے کے بارے میں اچھی طرح واقفیت نہ تھی، نہ تو وہ کیمپ کے پاس جا سکتے تھے نہ ان کو اندازہ تھا کہ وہ کون کون سے راستے بند کریں. جلدی ہی وہ اپنے علاقائی مخبروں کو بلا کر معلومات حاصل کرنے لگے، وہ سرمچاروں کی واپسی کہ تمام راستے بند کر چکے .

سرمچاروں کو خبر پہنچ چکی تھی کہ علاقائی کچھ لوگ بھی دشمن کی مدد کر رہےہیں، واپسی کے تمام راستے دشمن کے کنٹرول میں ہیں. سرمچاروں کی طرف سے کیمپ پر راکٹوں سے حملہ ہورہا تھا، وہ کیمپ کے قریب پہنچ چکے تھے، کیمپ کے اندر دشمن بے بس تھا کہ دوسری جانب عام آبادی پر فائرنگ گھروں کا جلانا لوگوں کو اٹھانے کا سلسلہ شروع کر چکا تھا. ایک سرمچار بہادری سے دشمن کے کیمپ کے اندر جانے کہ کوشش کر رہا تھا.

اسی وقت ایک گولی درختوں کے درمیان سے آگ کے شعلے کی طرح آکے سرمچار کے جسم کو چیر کر نکل گیا، اس کے سفید کپڑے سرخ ہورہے تھے، سرمچار زخمی حالت میں سرخ خوفناک آنکھوں سے گولی چلانے والے کو دیکھ رہا تھا، خوف سے اس کا بندوق ہاتھ سے گر پڑا، وہ اسی علاقے کا ایک نوجوان تھا، جو دشمن کی مدد کےلئے آیا تھا، وہ واپس دشمن کی طرف دوڑ رہاتھا، وہ اس عمل پر خوشی محسوس کر رہا تھا کہ ایک سرمچار کو گولی مار نے پر اسے انعامات سے نوازا جائے گا. لیکن وہ جب دشمن کے پاس پہنچے تو دشمن نے خود اسےگولی مار دیا تاکہ ایسا دکھانے کی کوشش کریں کے یہ سرمچار کی گولی سے ہلاک ہوچکا ہے. وہ دشمن کے سامنے تڑپ رہاتھا کہ ایک فوجی افسر نے یہ کہا کہ اب آپ کی ضرورت نہیں پیسوں کی خاطر آپ اپنے لوگوں پر گولی چلا سکتے ہو کل پیسوں کی خاطر ہمیں بھی مار سکتے ہو .

سرمچار اپنے زخمی دوست کو نکالنے کی کوشش کر رہے تھے، دشمن صرف ایک راستہ بند کرنے میں ناکام تھے، وہ یہ سوچ رہے تھے کہ سرمچار اس راستے کا استعمال نہیں کریں گے، جو کیمپ کے پیچھے تھا بہت مشقت کہ بعد سرمچار اس راستے تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے، جب دشمن کو علم ہوا تو وہ اسی راستے کی طرف آنے لگے۔ سب سرمچاروں کا ایک ساتھ نکلنا مشکل ہوچکاتھا جنگی حکمت عملی کے تحت ایک دوست کو قربانی دے کر باقی دوستوں کو نکال دینا تھا۔ ہر کوئی دوسرے دوست کو نکالنے کے لئے کہہ رہا تھا کہ ہمیں زخمی دوست کو جلدی اپنے کیمپ لے جانا ہے. ہر کوئی رکنا چاہتا تھا دوسرے کو جانے کہ لئے کہہ رہا تھا، آخر میں کمانڈر نے باقی دوستوں کو نکلنے کے لئے کہا خود دشمن کا راستہ روکنے کی کوشش کرتا رہا، باقی دوست جب نکلنے میں کامیاب ہوچکے تھے تو دشمن بھی کمانڈر کے نزدیک پہنچ چکا تھا اس کی بندوق میں صرف ایک گولی تھا وہ آخری گولی جو اپنے لئے پجا کر رکھ چکا تھا.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔