یاد رکھیں احتساب ہونا ہے – احمد علی کورار

220

یاد رکھیں احتساب ہونا ہے

تحریر: احمد علی کورار

دی بلوچستان پوسٹ

پاکستان سمیت دنیا بھر میں کرونا نے ایک بھونچال برپا کیا ہے۔ سراسیمگی کی کیفیت ہے۔ ہر شخص آشفتہ حالی اور اضطراب سے گذر رہا ہے۔ لوگ محصور ہو کر رہ گئے ہیں، زندگی کا پیہہ جام ہو چکا ہے، دنیا سکڑ کر منجمد ہو گئی ہے۔ کوئی امید بر نہیں آتی، کوئی صورت نظر نہیں آتی والی کیفیت ہے۔ لیکن اس کے باوجود، دنیا کے حوصلے بلند ہیں اور دنیا اس بحران سے نمٹنے کے لیے دن رات کوشاں ہے۔ پاکستان جس کی آبادی کا ایک حصہ پہلے سے غربت کا سامنا کر رہا ہے اس وبا نے مزید زخموں کو ارزاں کر دیا ہے۔ پاکستان میں محض حکومت نے لفظی جمع خرچ کا بازار سجا لیاہے۔ وعدے وفا نہیں ہو رہے۔ صرف دلاسوں سے کام لیا جا رہا ہے۔ ان دلاسوں اور طفل تسلیوں نے لوگوں کو فاقوں پر مجبور کر دیا ہے۔ حکومت وقت صرف ہدایات پہ ہدایات دے رہی ہے، فاصلہ رکھیں بار بار ہاتھ دھوئیں۔ ہاں اس وبا سے بچنے کے لیے ایسی تدابیر ضروری ہیں لیکن تدابیر بھوک نہیں مٹا سکتیں۔ صرف تدابیر پہ اکتفا نہیں کیا جا سکتا ہے۔ جتنے امدادی پیکجز کا اعلان کیا گیا ہے ان کی غریب عوام تک رسائی ممکن بنائی جاۓ۔

ایک طرف ایسی صورت حال سے عوام گذر رہی ہے اور دوسری طرف سیاسی بحران بھی تھمنے کا نام نہیں لیتا۔ اس سے پہلے ٹائیگر فورس پر حکومت اور حزب اختلاف کی بے وجہ بحث جاری تھی، اب ایک نئے سیاسی طوفان نے جنم لیا ہے۔ حکومت کے اندر ہی رخنے پڑ گئے ہیں، چینی اور گندم کی تحقیقاتی رپورٹ پبلک ہوئی ہے۔ اس پر شور مچا ہوا ہے۔ ابھی فیصلہ باقی ہے یہ ابتدائی رپورٹ ہے۔ وزیراعظم نے ذمہ داروں کے خلاف ایکشن لینے کا عندیہ دیا ہے۔ دولت بذریعہ سیاست کا کھیل تو برسوں سےجارہی ہے۔ اجارہ دار اور سرمایہ دار ہمیشہ حکومت کے اپنے مفادات کے ساتھ چپکے رہے ہیں لیکن پاکستان میں پہلی بار اس طرح کی رپورٹ شائع ہوئی، جس نے اپنی حکومت کا احتساب کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اب کی صورت حال میں یہ بات تو کھل کر سامنے آتی ہے کہ احتساب کے عمل سے کوئی نہیں بچ سکتا، خواہ حکومت کے اپنے نمائندے کیوں نہ ہوں۔ ساتھ ہی اس بات نے ابہام پیدا کیا ہے کیا احتسابی عمل کی ابتدا Reshuffling سے کی جا رہی ہے؟ اگر تو اسے صائب تسلیم کیا جاۓ توکیا حکومت کا احتساب ایک عہدے سے ہٹا کر دوسرا عہدہ دینے تک محدود ہے؟

بات اگر سبسڈی کی کی جاۓ تو یہ ایک حکومتی پالیسی ہے جس کے مطابق چینی ایکسپورٹ کرنے پر حکومت کی طرف سے تاجروں کو دی جاتی ہے اور سبسڈی اس صورت میں دی جاتی جب کوئی چیز مثلا چینی وافر مقدار میں موجود ہے، جس سے اپنے ملک کی قلت بھی پوری ہوتی ہو۔ تو اس صورت میں ایکسپورٹ ممکن ہے۔ خیر! فرانزک رپورٹ ابھی آنا باقی ہے اور یہ بھی دیکھنا باقی ہے احتساب کا عمل کتنا کارگر ثابت ہوتا ہے۔ مافیا کےاحتساب کا تو چلتا رہے گا لیکن اس وقت جس سنگین حالات سے قوم نبرد آزما ہیں معاشرے کا غریب طبقہ زبوں حالی کا شکار ہے افلاس منڈلا رہا ہے، مائیں بچوں کو تسلیاں دے رہی ہیں وہ حکومت کے امدادی پیکج کے منتظر ہیں ارباب اختیار سے گزارش ہے غریبوں کا خیال کریں یاد رکھیں احتساب ہو نا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔