یاد رفتگاں ۔ حکیم واڈیلہ

385

یاد رفتگاں

حکیم واڈیلہ

دی بلوچستان پوسٹ

وہ دیوتا نہیں تھا، اور نہ ہی آسمان سے آیا کوئی فرشتہ تھا۔ وہ کسی سردار یا نواب کے گھر سونے کا چمچ منہ میں لیکر پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔ وہ پیر، فقیر یا سفید ریش بزرگ بھی نہیں تھا، وہ جادوگر یا کرتب باز بھی نہیں تھا۔ وہ مذہب، خدا، زندگی و موت اور موت کے بعد کی زندگی کے نام پر لوگوں کو ڈرانے والا مولوی بھی نہیں تھا۔ وہ اپنے دور کے ان خوش قسمت نوجوانوں میں سے ایک تھا جنہیں شہید فدا احمد سے ملنے، ان سے سیکھنے اور انکی سربراہی میں سیاست کرنے کا موقع فراہم ہوا۔ وہ فلسفہ فدا سے اس قدر متاثر تھا کہ وہ اسی راہ پر ہی گامزن رہا۔ بی ایس او میں بہترین کردار ادا کرتے ہوئے بی ایس او کے چیئرمین بن گئے اور پھر بی این ایم کے پلیٹ فارم سے سیاست کو جاری رکھا اور بہتر وقت کا انتخاب کرتے ہوئے بی این ایم کو اس ڈگر پر چلانے کا بیڑہ اٹھایا جو خواب شہید فدا احمد نے دیکھا تھا۔ دو ہزار چار میں جب وہ بی این ایم کی سمتوں کا تعین کرکے دنیا کے سامنے اپنے ساتھیوں سمیت یہ اعلان کرتا ہے کہ اب بی این ایم پاکستانی پارلیمانی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے بلوچستان کی آزادی و خودمختاری کی خاطر جدوجہد کریگی۔

اس اعلان کے بعد بلوچستان کی سیاست میں ایک بوچھال کا آنا تو یقینی تھا اور اس عمل کی مخالفت بھی لازم تھی۔ دشمن کی جانب سے وہی سب کیا گیا جس کی امید تھی، کچھ غیر سیاسی و انتہائی اخلاق سے عاری نعرے بلند کرائے گئے “لالا منیر سے شروع غلام محمد پر ختم بی این ایم بی این ایم” لیکن وہ نعرے، وہ مخالفت، وہ ڈرامہ بہت ہی کم وقت میں اپنی موت آپ ہی مرگیا اور بی این ایم کا فکر بی این ایم کا مقصد، بی این ایم کا بیانیہ، بلوچستان کے کونے کونے میں پھیلتا چلا گیا۔ اور اسی پاداش میں وہ اغواء کرلیئے گئے، وہ ٹارچر کئے گئے، انہیں ڈرایا گیا، دھمکایا گیا، لالچ و مراعات کی پیشکش کی گئی۔ وہ جھکا نہیں، وہ بکا نہیں، بلکہ وہ ریاستی بربریت کا مردانہ وار مقابلہ کرتا رہا۔ جب ایک سال بعد وہ اپنے ہمراہ شیر محمد بلوچ کے ساتھ بازیاب ہوئے تو وہ انتہائی کمزور حالت میں تھے، انکی حالت دیکھ کر یہ کہنا قطعاً مشکل نہیں تھا کہ ان پر انسانیت سوز تشدد کیا گیا ہے اور وہ کردار جو تاریخ بدلنے نکلا تھا، زمانے کو بدلنے نکلنا تھا، دشمن کو شکست دیکر مسکراہٹ لئے پھر سے اپنے منزل کی جانب رواں دواں ہوا اس مرتبہ وہ پہلے سے بھی زیادہ تیزی و پختگی کے ساتھ بڑھ رہا تھا۔

جب راقم نے اسے پہلی مرتبہ دیکھا تو ایک گندمی رنگ کا ادھیڑ عمر شخص، جس کے چہرے سے ہمیشہ سنجیدگی جھلکتی تھی، جسکی داڑی منڈی ہوئی اور چہرے پر مونچھیں سجی تھیں اور ہمیشہ بائیں طرف سے بالوں کا مانگ نکالنے والا ایک عام سا دکھنے والا شخص غلام محمد بلوچ تھا۔

غلام محمد مند کا تھا، غلام محمد جسے گوادر نے اپنا لیا تھا، غلام محمد جو کراچی کو اپنی آمد سے زندگی بخش دیتا تھا، غلام محمد جس کی تقریریں اندرون سندھ، بلوچ علاقوں میں بھی کافی مشہور و معروف تھیں، غلام محمد جسے کوئٹہ کی سردیاں پکارتی تھیں، غلام جسے آواران و مشکے کے کوچہ و پہاڑیاں پہچانتے تھے، غلام محمد جو بلوچ و بلوچستان پر قربان ہونے کی خاطر ہی پیدا ہوا تھا۔

جب ہماری رفاقت، ہماری قربت، ہمارے دیوان، ہماری تربیت غلام محمد کی سربراہی میں شروع ہوئے تو ہمیں بلوچ سیاست کی اہمیت، قومی جدوجہد میں جماعت کی ضرورت و اہمیت، تحریک کی اہمیت، عمل کی اہمیت و علم کی ضرورت سمیت بہت سے تحریکی لوازمات کے بابت علم و آگاہی میسر ہوئی۔ جو کسی نہ کسی طرح آج بھی ہماری رہنمائی کرتی ہیں۔ چیئرمین غلام محمد سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری تھا لیکن سب سے اہم ترین وقت جو انکی سربراہی میں گذرا وہ بی این ایم کے دو ہزار آٹھ کے کراچی کا کونسل سیشن تھا۔ سیشن میں ان سے ملاقاتیں شاید میری پوری سیاسی زندگی کے بہترین دن ہوں وہ تین دن کا بند اجلاس اس سے قبل سیشن کی تیاریاں اور ان تمام ادوار میں واجہ کا ہمارے ارد گرد موجود ہونا۔ سیشن سے ایک دن قبل ملیر غازی ٹاون میں تمام کارکنان و رہنماوں کے استقبال کا انتظام کیا جاچکا تھا، ملیر کی شاہراؤں پر بی این ایم کے سینکڑوں جھنڈے اور ہزاروں پوسٹرز آویزاں تھے۔ چیئرمین سمیت پارٹی کے اکثر رہنما جلد ہی پہنچ چکے تھے اور دیگر ساتھیوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا۔ ملیر زون کے رہنما کی حیثیت مجھ سمیت زون کے تمام عہدیدار وہاں موجود تھے کراچی چونکہ میزبان ریجن تھا اسلئے تمام زمہ داریاں ہمارے تین زونز کے ساتھیوں کے سپرد تھیں۔ ہم اپنی زمہ داریاں بھی سرانجام دیتے رہتے اور وہاں سیاست چائے اور سگریٹ کا نہ رکنے والا سلسلہ بھی جاری رہتا۔ ہم سیاست اور سگریٹ دونوں سے محروم تھے البتہ چائے پر گذارہ کرتے ہوئے گفتگو سنتے رہتے۔

جب بلوچستان بھر سے ساتھی پہنچ کر ایک جگہ جمع ہوئے تو سیشن کیلئے انتخاب کردہ اس جگہ پہنچے جہاں اگلی صبح سیشن ہونا تھا۔ سیشن میں ہونے والی تمام واقعات کو تفصیلاً قلم بند کرنا یقینی طور پر مناسب اور ممکن نہ ہوگا البتہ اتنا ہی کہہ سکتا ہوں، کونسل سیشن میں جس طرح واجہ نے بردباری سے و ذمہ دارانہ طور پر ان تمام مسائل کا حل تلاش کرتے ہوئے سیشن کو کامیاب بنانے کے ساتھ ساتھ پارٹی کو بھی نقصان سے بچائے رکھا وہ ایک عظیم پائے کا رہنما ہی کرسکتا تھا۔ سیشن اختتام پذیر ہوا، چیئرمین غلام محمد پھر سے صدر منتخب ہوئے۔ تمام کونسلران سے رخصتی کرتے وقت یہ وعدہ و اقرار کرتے رہے کہ پھر ملینگے اور پھر ہم بھی گھروں کو روانہ ہوئے۔ سیشن کے دوران ان دنوں کے عالمی وبا کہیں ڈینگی وائرس کا شکار ہوکر میں ہفتہ بھر ہسپتال میں داخل رہا اور پھر کہیں جاکر وائٹ بلڈ سیل کے ملنے سے طبیعت میں سدھار آنے لگی۔ طبیعت میں تھوڑی سے سدھار کے ساتھ ہی سیاسی عمل بھی جاری رہا، چیئرمین غلام محمد سے دوبارہ ملاقات جہانگیر روڈ پر ہوئی جہاں انہوں نے ایک میٹنگ کال کی تھی۔ اس میٹنگ کے بعد چیئرمین روانہ ہوئے، وہ اپنے کاموں میں مصروف بلوچ عوام و پارٹی کارکنان سے ملاقات و تربیت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔

ایک دن اعلان ہوا کہ بی این ایم کراچی ریجن کا تربیتی ورکشاپ لیاری میں منعقد کیا جارہا ہے، تمام کارکنان کو پابند کیا گیا کہ اس ورکشاپ میں حصہ لیں کیونکہ چیئرمین کی سربراہی میں اس ورکشاپ کا انعقاد کیا جارہا تھا تو ورکشاپ میں حصہ لینا انتہائی اہمیت و ضروری تھا کیونکہ چیئرمین کو دیکھنا ہی انقلاب سے روبرو ہونے جیسا تھا۔ اس ورکشاپ میں چیئرمین سمیت دیگر رہنماوں نے تربیتی حوالے سے گفتگو کی۔ چیئرمین غلام محمد کی ایک بات جو مجھے ہمیشہ یاد رہے گی وہ یہ تھی کہ “پارٹی اگر کشتی ہے تو کارکنان پرزہ ہیں، اگر ایک پُرزہ بھی اپنے جگہ سے نکل گیا یا ٹوٹ گیا تو کشتی کا چلنا ناممکن ہوگا” شہید قائد کی سربراہی میں وہ دن انتہائی اہم اور پر اثر گذرا تھا۔ لیکن ہم اس خبر سے بے خبر تھے، اب یہ مسکراہٹ، اب یہ سنجیدگی، اب یہ تربیت، اب یہ خیال، اب یہ سادگی، اب یہ اپنا پن اور جذبہ حریت پھر کبھی ہمیں دکھائی نہیں دیگا۔

تین اپریل کو اچانک سے حالات یکسر بدل گئے، جذبہ خوف و پریشانی میں تبدیل ہوگئی، سوچ پر غیر ضروری خیالات نے گھر کرلیا اور بس اس انتظار میں تھے کہ آگے کیا کیا جائے پھر پارٹی کی جانب سے اعلان ہوا کہ احتجاج کیا جائیگا کراچی میں بھی احتجاج کا سلسلہ جاری رہا اور اچانک نو اپریل کو یہ خبر موبائل کے میسیجز میں موصول ہوئی کے چیئرمین غلام محمد، لالا منیر اور شیر محمد کو شہید کرکے اُن کی مسخ شدہ لاشیں مرگاپ کی ندی میں پھینک دی گئی ہیں۔ پھر کیا ہونا تھا بلوچستان بھر کو آگ نے اپنے لپیٹ میں لے لیا تھا جس سے کراچی بھی بچ نہ سکا تھا۔

آج شھید غلام محمد، شھید لالا منیر اور شھید شیرمحمد کو ہم سے جسمانی طور پر جدا ہوئے گیارہ سال کا طویل عرصہ گذرچکا ہے۔ آج ہمیں سوچنا چاہیئے اور اپنے آپ سے سوال کرنا چاہیئے کہ کیا ہم بھی واقعی اس قدر جدوجہد سے مخلصانہ محبت کرتے ہیں جتنا شہدائے مرگاپ کرتے تھے؟ کیا ہم اپنے عمل سے ان شہداء کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہچانے کی خاطر بھرپور جدوجہد کررہے ہیں؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔