ہشیار باش بی ایس او
تحریر: نادر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا قیام سنہ انیسو ستاسٹھ میں ہوئی، یہ تنظیم بلوچ طلباء کے منظم ادارے کے طور پر ابھر کر سامنے آئی، بلوچ نوجوانوں کا قومی سیاست و جہد آزادی میں ہمیشہ ایک کلیدی کردار رہا ہے۔ بی ایس او کے کردار کو قومی سیاست میں سیاسی و سماجی سطح پر ہمیشہ سراہا گیا ہے۔ بی ایس او شاید دنیا کی وہ واحد تنظیم رہی ہے، جو عوام میں بھی مقبول رہی ہے، جسکی بنیادی وجہ بلوچ قوم کے قومی سوال اور بلوچ قوم کی جذبات کی صحیح ترجمانی اور درست سمت میں رہنمائی کررہی ہے۔ جسکی پاداش میں بی ایس او ہمیشہ ریاستی عتاب کا شکار رہی ہے۔ حمید بلوچ کی جیل میں پھانسی سے لیکر مجید و کریم تک ہزاروں باشعور طلباء کی شہادتیں بی ایس او کی پرچم کو سرخ کرچکی ہیں۔ بلوچ کی سیاسی نادانیاں اور کچھ ریاستی کارستانیاں و سازشیں بی ایس او کو مختلف دھڑوں میں تقسیم تو کرچکی ہیں لیکن بلوچ قومی حق خودارایت بشمول قومی آزادی آج بھی بی ایس او کے آئین کا حصہ ہے۔ بی ایس او آج بھی بلوچ قومی آزادی کے کارواں میں پہلی صفوں میں کسی نہ کسی شکل و صورت میں شامل ہے۔
بلوچ تحریک آزادی تیز تو کبھی مدہم انداز میں بلوچستان کے سینے میں دھڑکتی رہتی ہے۔ جب بھی بلوچ اکابرین نے بی ایس او سے قومی جہد میں متحرک کردار ادا کرنے کا اعلان کیا ہے لبیک کہہ کر بلوچ طلباء نے جانی و مالی قربانیوں سے دریغ نہیں کی ہے۔ بلوچ نوجوان اس بات کا شعور و ادراک علمی بنیادوں پر رکھتے ہیں کہ زندہ اور آزاد اقوام کی ترقی میں نوجوانوں کا کیا کردار ہے اور غلامی کی زنجیروں میں جکڑی قوم کی آزادی میں نوجوانوں کا نظریاتی کردار کتنا اہم ہے۔ نظریہ و قومی سیاست کے علمبردار بی ایس او ظلم و جبر کے ہر دور میں ریاست کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کے طرح کھڑی رہی ہے۔ کالجوں، یونیورسٹوں میں طلباء و طلبات حقوق اور مسائل کے حل سمیت بلوچ وطن کے طول و عرض میں بلوچ قومی جہد کیلئے بی ایس او کی جہد پر آج بھی تاریخ لکھی جارہی ہے۔
عروج و زوال، روشنی و اندھیر قانون قدرت کے اٹل اصول ہیں۔ جب کوئی تنظیم اس عمل کا شکار بنتی ہے تو بہت سارے فصلی بٹیر میدان عمل میں متحرک کیئے جاتے ہیں تاکہ نوجوانوں اور قوم کا رخ اصل اور بنیادی نظریہ و مورچہ سے غافل کرکے وقتی نعروں کو تقویت دی جائے، اس سے کار سرکار بھی جاری رہتی ہے اور لیڈری کا شوق بھی پورا ہوجاتا ہے۔ بی ایس او پر ریاستی کریک ڈاون کا فائدہ اٹھانے کیلئے آج سینکڑوں مداری مختلف نظریات کی پرچار کررہے ہیں، جو قوم پرستی سے براہ راست متصادم ہیں۔ انکی بیخ کنی کیلئے بی ایس او سمیت ہر قوم پرست کارکن کو میدان عمل میں اترکر ان قوتوں کو واضح پیغام دینا ہوگا کہ بلوچ اگر ریاست کو جواب دے سکتی ہے تو ان فصلی بٹیروں کو بھی روکنے کی اہلیت رکھتی ہے۔
نظریہ پر قائم کیے گئے موقف موثر ہوتے ہیں، یہ جہد کو ایک سمت اور رخ پر لے جانے میں مددگار ہوتے ہیں۔ منزل کی پہچان ہوتی ہے۔ ایسے فیصلے جذباتی نہیں بلکہ فکری بنیادیں رکھتی ہیں۔ ان سے دستبرداری صرف قابض ریاست کی خواہش ہوتی ہے نہ کہ کوئی قوم پرست اپنی جڑوں کے کٹنے پر خوش ہوگا۔ عمل میں نقصان کا احتمال رہتا ہے، جو نوجوان فکری طور پر جہد سے وابستہ ہوتے ہیں وہ کسی کے کم فرٹ زون کا نہیں بلکہ قومی آزادی کو سامنے رکھ کر آزادی پسند جہد کا حصہ بنتے ہیں۔ جان کی نقصان سے لیکر وہ ہر قربانی کیلئے رضا کار بن کر تحریک کو ایندھن فراہم کرتے ہیں ایسے فکری جہد کو کوئی جذباتی نعروں کا نام دے تو اسکا کیا مطلب لیا جائے، پھر ایک قوم پرست موقف اور ریاستی بیانیہ میں کیا فرق رہتی ہے۔
قومی تحریک کی ترقی و رہنمائی کی ذمہ داری دانشوروں، ادیبوں، سیاسی و سماجی کارکنوں کے کندھوں پر ہوتی ہے۔ قومی بیانیہ سے متصادم کسی بھی غیر فکری موقف کا قلع قمع کرنا ہر باشعور بلوچ کے ساتھ ساتھ بی ایس او کی نظریاتی لیڈر شپ و کارکنوں کی ذمہ داری ہے۔ بی ایس او اپنی سیاسی سرکلوں و تربیتی پروگراموں میں قومی بیانیہ و نظریاتی داہروں کو سمجھنے اور علمی و فکری تسلسل کو برقرار رکھنے اور شعور و آگائی کیلئے کارکنوں کی درست سمت میں رہنمائی کریں اور منفی عزائم رکھنے والوں کی بیخ کنی کریں جو موجودہ تحریک کو جذباتی کہہ کر جانے انجانے میں دشمن کو خوش کرکے نفسیاتی برتری کا موقع فراہم کررہے ہیں، بلوچ نوجوان اپنی ذمہ داریوں اور قوت کو سمجھیں تاکہ بی ایس او سے وابستہ بلوچ قوم کی امیدوں کو پورا ہونے کا موقع مل سکے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔