ہاں مجھے اختلاف ہے – حبیب بلوچ

438

ہاں مجھے اختلاف ہے

تحریر: حبیب بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ہاں مجھے اختلاف ہے ، ان عزائم سے جو کسی کے وجود پر قدغن لگاتے ہیں، ہاں مجھے اختلاف ہے ان مخالفین سے جو کسی کے عمل سے اسکی ذات کو تسلیم نہیں کرتے، ہاں مجھے اختلاف ہے اس سوچ سے جو ایک انسان پر بنا سوچے سمجھے رائے قائم کرتی ہے، ہاں مجھے اختلاف ہے اس سماج سے جہاں دو انسانوں میں آقا اور غلام کی تفرق پیدا کی جاتی ہے، ہاں مجھے اختلاف ہے اس راہ سے جو ترقی کی بجائےماضی کے افسانوں سے ذہنی آسائشوں میں مگن رہتی ہے، جی ہاں مجھے اختلاف ہے اس قانون سے جس میں ہر فرد کیلۓ الگ تھلگ طرزِ زندگی کے اصول پائے جاتے ہیں ، ہاں مجھے اختلاف ہے ان روایتوں سے جو فطرت کیلۓ زنجیر ہیں, ہاں مجھے اختلاف ہے ان فیصلوں سے جو مخصوص لوگوں کے لئے الگ طے پاتے کیے جاتے ہیں، مجھے اختلاف ہے دکھاوے کی عبادت سے ، مجھے اختلاف ہے جھوٹے رشتوں سے، مجھے اختلاف ہے فرسودہ نظام کی حکمت عملی سے، مجھے اختلاف ہے جھوٹ ، فریب سے, مجھے اختلاف ہے قاتل کے قتل کرنے کے عمل سے، مجھے اختلاف ہے مقتول کی خاموشی سے، مجھے اختلاف ہے بغاوت کی خاموشی سے، مجھے اختلاف ہے مظلوم سے، مجھے اختلاف ہے ظالم سے، مجھے اختلاف ہے قیادت سے، مجھے اختلاف ہے خادم سے، مجھے اختلاف ہے آقا سے مجھے اختلاف ہے پادری سے، مجھے اختلاف ہے اس سچ سے جو چپ ہے، مجھے اختلاف ہے جھوٹ سے، مجھے اختلاف ہے محکوم سے، مجھے اختلاف ہے حاکم سے ، مجھے اختلاف ہے اہل علم سے، مجھے اختلاف ہے دانشور سے، مجھے اختلاف ہے قاری سے، مجھے اختلاف ہے منصف سے جو سچ نہیں لکھتا۔

مجھے نہیں بلکہ میرے ارد گرد کے لوگوں کو، بوڑھے ، بچوں کو، نوجوانوں کو، عورتوں کو، میرے سماج کو ، میرے ساتھ گفت و شنید کرنے والوں کو، میرے ساتھیوں کو ، تمام انسانوں کو ، شعور کو، لاشعور کو، مرشد کو، مرید کو، غریب کو، امیر کو اور سب سے بڑھ کر محکوم کو اختلاف رکھنا چاہئیے۔

اختلاف ہونا چاہئیے اُس نظام سے جہاں میرے وجود کو خطرات لاحق ہوں، جہاں میرے تاریخ و تمدن کو مسخ کرنے کی کوشش کی جائے، جہاں میرے جذبات کی قدر نہ کی جائے، جہاں میری شناخت کے ساتھ غلامی لکھی جائے۔

اختلاف ہی ہے ہر دور میں، ہر انداز میں، ہر زبان میں، ہر بیان میں ، ہر فکر میں، ہر سوچ میں ، ہر زمان میں، ہر مکان میں، اگر یہ نہ ہوتا تو آج انسانوں کے نام و نشان نہ ملتے، کیا ہوتا اگر اختلاف نہ ہوتا ؟

فلسفہ نہ ہوتا، دین ومذہب نہ ہوتے، تمدن نہ ہوتا، ثقافت و زبان نہ ہوتی, سائنس و ٹیکنالوجی نہ ہوتے، سوال نہ ہوتا، تہذیب و تربیت نہ ہوتی۔

کیوں نہ ہوتے؟

یہاں انسان نہیں ملتے صرف انسانی شکل میں تراشے ہوئے پتلے ملتےہیں، سوچنے ، سمجھنے، بولنے سننے، کے لئے کسی کاوجود نہ ہوتا، اختلافِ راۓ رکھنے سے لوگ قاصر ہوجاتے ، اگر راۓ ہوتی، اس کے ساتھ اختلافِ راۓ نہیں ہوتا تو سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔

اس لئے اگر اختلاف نہیں ہوتا تو کچھ بھی نہیں ہوتا، یہ اختلاف ہی ہے جس سے اختلافِ راۓ بنتا ہے جو آپ کی سوچنے اور سجھنے کی استعداد میں اضافہ کرتا ہے، آپ کو فلسفہ ، دین و مذہب، تہذیب و تمدن، ثقافت ، زبان سائنس اور ٹیکنالوجی سے متعارف کراتا ہے، یہی وجہ ہے کہ مجھے اختلاف ہے ہر اس عمل سے جو انسانیت کی بقا اور سلامتی کے لئے نہیں ہے، اور یہ اختلاف اس وقت تک رہے گا، جب تک یہ عزائم فرسودہ سماج کو جنم دیتے رہینگے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔