بلوچستان کے ضلع کیچ میں پاکستانی فورسز نے آپریشن کے دوران ایک گھر پر چھاپہ مارا اور خواتین و بچوں سمیت دیگر افراد کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔
ضلع کیچ اور پنجگور میں فورسز کی جانب سے دوسرے روز بھی آپریشن جاری رہی جہاں مختلف علاقوں میں فورسز نے گھروں پر چھاپے مارے اور کئی افراد کو حراست لینے سمیت گھروں کو نظرآتش کیا گیا۔
بدھ کے روز مغرب کے وقت کولواہ کے علاقے بدرنگ میں فورسز نے دوران آپریشن رضائی کے گھر پر چھاپہ مار کر گھر میں موجود خواتین و بچوں سمیت تمام افراد کو حراست میں لیکر اپنے ہمراہ لے گئے۔
گرفتار ہونے والوں میں رضائی، پیر بخش ولد رضائی، بی بی مریم بنت علی محمد، کمسن اسد، ماھل، گوہر اور نو مہینے کی مہلب شامل ہیں۔
دوسری جانب تیرتیج سے حراست بعد لاپتہ ہونے والے افراد کی شناخت جاپر ولد میار نوربخش ولد احمد،مرادجان ولد عزیز ،عباس ولد عزیز ، اشرف ولد مرادبخش ،چارشمبے ولد مراد بخش ،اور پُلین جبکہ مالار سے حراست بعد لاپتہ ہونے والوں کی شناخت جان محمد ولد پنڈوک ،مقصود ولد پنڈوک ،خداد ولد پنڈوک محمد خان ،پنڈوک اور میا سنجر کے ناموں سے ہوئی ہے۔
فورسز کی جانب سے مذکورہ علاقوں میں بڑے پیمانے پر آپریشن جاری ہے جبکہ اس دوران مختلف علاقوں میں چیک پوسٹ بھی قائم کی جارہی ہے۔
ضلعی حکام کی جانب سے تاحال اس حوالے سے کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔
ماضی میں بلوچ خواتین اور بچے کے جبری گمشدگیوں کے واقعات بلوچستان کے مختلف علاقوں سے رپورٹ ہوتی رہی ہے۔ جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز اٹھانے والی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق سینکڑوں کی تعداد میں بلوچ خواتین و بچے پاکستانی خفیہ اداروں کے حراست میں ہیں جنہیں نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا۔
سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم خان رئیسانی نے گذشتہ روز میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ میڈیا ملک میں آزاد ہونا چاہیے میر شکیل الرحمان سمیت دیگر لاپتہ افراد کی رہائی کو یقینی بنائی جائے۔
دریں اثنا پاکستان بھر میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے سوشل میڈیا ایکٹوسٹس نے انیس اپریل کو #SaveMissingPersons ہیش ٹیگ کیساتھ کمپئین کا اعلان کیا ہے جس میں بلوچ سماجی اور سیاسی حلقے حصہ لینے کا اظہار کرچکے ہیں۔