کیا بلوچستان میں انسانیت کا خون نہیں ہو رہا ہے؟
تحریر: ظفر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کسی انسان کو ناجائز قتل کرنا یا اسے حبس بے جاہ میں رکھنا نہ صرف دنیا کے تمام مذاہب نے قابل جرم عمل قرار دیا ہے بلکہ جدید انسانی سماج نے بھی ایسے اقدامات کرنے والوں کے خلاف کڑی سے کڑی سزائیں مقرر کی ہیں، اس کے علاوہ دنیا کی تمام انسانی حقوق کی تنظیمیں سمیت اقوام متحدہ میں قوانین بنائے گئے ہیں. دنیا کے تمام انسانی حقوق کی تنظیمیں اور تمام ریاستوں کے قوانین میں یہ شق شامل ہے کہ کسی بھی انسان کی آزادی کو چھیننے کا حق اختیار کسی کو نہیں ہے. انسان اپنے اظہار خیال اور اپنی زندگی اپنے طریقے سے جینے کا پورا حق رکھتا ہے. کسی بھی گروہ ، خاندان، قبیلہ، قوم یا کسی بھی ملک کو غلام بنانا اس پر ظلم کرنا اس کے تمام بنیادی حقوق پر ڈاکہ ڈالنا اور اسے قتل کرنا انسانیت کے مکمل خلاف ہے اگر ایسے کسی بھی اقدام کو دنیا کے کوئی شخص دیکھے تو نہ تو صرف مظلوم کے حق میں آواز اٹھائے بلکہ اس کی آزادی کو دلوانے اور اسے کسی ظالم کے پنجوں سے آزاد کروانے کے لیئے اپنا حق ادا کرنا چاہیئے. دنیا کے تمام انسانیت پسندوں نے اس عمل کو اخلاقی جراَت قرار دیا ہے اور انسانی تاریخ کے معاشرتی فلاح و بہبود کی بنیادی انہی اساس اقدار پر ڈال دیا ہےـ
آج اگر بلوچستان کے صورتحال پر کوئی انسانیت پسند غور و فکر کرے تو اس کے رونگھٹے کھڑے ہو جائیں گے کیونکہ مادر وطن بلوچستان کے زخمی سینے پر ہر طرف ان کے فرزندوں کی مسخ شدہ لاشیں بکھری پڑی ہیں ـ بلوچستان کے ہر گھر میں، ہر گلی میں ہر کوچے میں ہر دیہات و جنگل میں ہر شہر و بازار صرف اور صرف آپ کو ایک ہی آواز سنائی دے گا یہ آواز ان ماؤں کی آواز ہیں، جو کہ اپنے جگر گوشوں کی مسخ شدہ لاشیں دیکھ کر ان کی کلیجے سے نکلتی ہے ـ کوئی اگر دشمن کے ہاتھوں بلوچستان میں حیوانیت کا ننگا ناچ دیکھنا چاہتا ہے تو یہاں دیکھ لے ـ دشمن نے ہر طرف انسانیت کو قید کر رکھا ہے اور انسانیت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی ہے، بلوچستان دنیا کو پکار رہی ہے کہ میری طرف توجہ دیں ـ لیکن صد افسوس یہ کہ دنیا میں درجنوں انسانی حقوق کی تنظمیوں اور انسانی سماج پر لکھنے والے سینکڑوں قلمکار و دانشوروں کے باجود مقبوضہ بلوچستان میں انسانیت دم توڑنے کے قریب ہےـ
1947 میں جب بلوچستان کو برطانیہ سے آزادی ملی تھی تو بلوچستان ایک نوزائیدہ آزاد ریاست جو کہ کامل تشکیل ریاست کی طرف گامزن تھی لیکن بد قسمتی سے برطانیہ نے ہندوستان کو تقسیم کرکے جنوبی ایشیا میں ایک ایسی ریاست، پاکستان کی بنیاد رکھ دی جو مکمل انسانیت کے ماتھے پر بد نما داغ بنا ہوا ہے ـ اسی ناسور پاکستان نے بلوچستان کے آزادی پر شب خون مار کر 27 مارچ 1948 کو بلوچستان پر جبری قبضہ کر لیا اس دن سے لے کر آج تک بلوچستان کا سینہ آگ و خون میں لپیٹ دیا گیا ہے اور اس دن سے لے کر آج تک اس غیر فطری اور غیر انسانی ریاست پاکستان نے ہزاروں بلوچوں کا نسل کشی کرکے بلوچستان پر اپنے پنجے مضبوط کر لیئےـ لاکھوں بلوچ اس غیر فطری ریاست کی بربریت سے بے گھر ہوگئے ہزاروں بلوچ نوجوان، مرد، عورت بوڑھے اور بچے قابض پاکستان کی عقوبت خانوں انسانیت سوز تشدد سہ رہے ہیں ـ لیکن افسوس کی بات یہ کہ بلوچستان کے مسئلے پر دنیا کی مذہب اور جمہوریت پسند سمیت تمام انسانی سر بلندی پر شب و روز کام کرنے والے تمام ادارے و قانون ساز اور لکھنے والے قلمکار و دانشور نہ صرف خاموش بلکہ ان کی نظر میں بلوچ قوم انسان نہیں بلکہ کیڑے مکوڑے ہیں اور پاکستان انہیں کچل رہا ہے ـ
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔